عہد ساز مبارک قاضی ۔ جاندارن بلوچ

168

‏عہد ساز مبارک قاضی
تحریر: جاندارن بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ

بلوچی زبان کے معروف و منفرد شاعر آشوب قاضی بلوچستان کے ضلع تربت میں انتقال کرگئے۔ آشوب قاضی کی تدفین آبائی علاقے میں کی گئی ہے۔

شاعرو شاعری کی اہمیت

شاعری انسانی جذبات، خیالات، احساسات، اور تجربات کو زبانی اور ادبی شکل میں اظہار کرنے کا ایک خوبصورت طریقہ ہے۔
شاعری انسانی زندگی کا اہم حصہ ہے جو احساسات، خیالات، زبان اور ثقافت کو ایک خوبصورت اور ادبی طریقے سے اظہار کرتی ہے۔ اس کی اہمیت ادبیت، ثقافت، اور اجتماعی ترقی کے لحاظ سے بے حد زیادہ ہے۔

زبان

انسانی تبادلے، تعلیم، انتقالِ خیالات، انڈرسٹینڈنگ اور اجتماعی تعاملات کا اہم حصہ ہے۔ زباں کسی بھی قوم کے لئے اتنی اہمیت کی حامل ہے جتنا ایک انسان کے لئے جسم پے کپڑے وہ قوم کبھی ترقی نہیں کرتی جو اپنی زباں کو اہمیت نا دیتی ہو چھوٹی سی مثال بنگلادیش کی اگر لیں سب سے پہلے انہوں نے بنگالی کو سرکاری زبان قرار دلوایا بعد از آزادی کا نعرہ لگایا۔

مبارک قاضی کون تھے؟

مبارک قاضی جنہیں بلوچی ادب میں محبت سے ابا قاضی کا لقب دیا گیا تھا شاعری کی دنیا میں ایک الگ پہچان کے مالک تھے۔

مبارک قاضی بلوچی زبان کے واحد شاعر ہیں جنہیں ان کی زندگی میں ہی عوام کی جانب سے بے پناہ محبت اور عزت ملی ـ جہاں ان کے عشقیہ اشعار کو بھرپور پذیرائی ملی وہاں ان کی مزاحمتی شاعری بھی خوب گونجتی رہی بالخصوص ان کی مزاحمتی شاعری کو ہر سطح پر سراہا و گنگنایا گیا۔

قاضی مبارک کی شاعری نے نصف صدی تک بلوچی ادب کو متاثر کیا، وہ اگلے کئی عشروں تک بلوچی ادب اور زبان کی خدمت کے ساتھ ساتھ بلوچ تحریک پر اپنی شاعرانہ کمنٹ منٹ کے باعث یاد رکھے جائیں گے۔

مبارک قاضی قوم پرست شاعر کی حیثیت سے اپنا ایک الگ مقام رکھتے تھے۔ وہ 24 دسمبر 1956ء کو مکران کے علاقے پسنی میں کہدہ امان اللہ کے گھر پیدا ہوئے۔

انہوں نے اپنی ابتدائی تعلیم پسنی ہائی اسکول میں مکمل کی ہے۔ 1972ء میں میٹرک کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لیے سندھ مسلم کالج (ایس ایم کالج) کراچی چلے گئے۔ لیکن مالی مسائل نے ان کی تعلیم کو متاثر کیا۔ لہذا انہوں نے اپنی تعلیم ادھوری چھوڑ دی اور اپنے خاندانی کاروبار میں شامل ہونے کے لئے اپنے علاقے میں واپس آ گئے۔

1978ء میں اردو آرٹس کالج سے بی اے کی ڈگری حاصل کرنے کے لیے دوبارہ کراچی چلے گئے، اس کے بعد انہوں نے کوئٹہ میں بلوچستان یونیورسٹی سے ایم اے کیا اور بین الاقوامی تعلقات (آئی آر) میں ڈگری حاصل کی۔

میری ان سے ایک بار ملاقات اسلام آباد میں بی ایسی سی کے اینول پروگرام میں ہوئی ان کی بلوچ قوم اور اپنی سرزمیں کے لئے تبلیغ کرنا سننے والا خدا تک کو بھول سکتا ہے وہ ایک پیغمبر کی زبان بولتا تھا
انہیں انقلابی شاعری کرنے پر قید کا سامنا بھی کرنا پڑھا ہے۔ جبکہ ان پر اور ان کے گھر پر قاتلانہ حملے اور بم دھماکے بھی ہوئے تھے۔

ان کے کئی مشہور شعری مجموعے
‘سبزین ساوڈ،
‘ہانی منی ماتیں وطن’
اور بہت سے دیگر کتب شامل ہیں۔
2007 میں جب گوادر بندرگاہ کو سنگاپور پورٹ اتھارٹی کے حوالے کیا گیا اور گوادر میں باہر سے آۓ لوگ زمینیں خرید کر بڑی کھوٹیاں بنانے لگے تو مبارک قاضی نے اپنی مزاحمتی شاعری
اور نثروں سے ایک سیاسی ہلچل پیدا کردی۔

’حد نگاہ تک بیرونیوں کی عمارتیں ہیں

یہ ہے میرا وطن پر میرا نہیں‘

مبارک قاضی نے بلوچی زبان کے لئے ایک بہتر تبدیلی لائی اور اسے حیرت انگیز طور پر نئی شکل دی۔ بلوچستان کی عوام ہمیشہ ان سے محبت اور احترام کرتے رہے ہیں۔ ان کا شمار بلوچستان کی معروف اور اہم شخصیات میں ہوتا ہے۔

مبارک قاضی کی شاعری لوگوں کو قوم پرستی کے عزائم کا سب سے بڑا سبق دیتی ہے، ان کے تمام اشعار متعدد بلوچی گلوکاروں نے گائے ہیں۔ مبارک قاضی کی شاعری کی وجہ سے بلوچی ادب اور زبان میں اچھی طرح سے اصلاح ہوئی ہے۔

بلوچ قوم ان کی لگن اور محنت پر فخر محسوس کرتی ہے اور پوری قوم ہمیشہ ان کے ادبی خدمات کو قدر کی نگاہ سے دیکھے گی۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔