کیا اسلام ایک سیکولر دین ہے؟ – اسماعیل حسنی

325

کیا اسلام ایک سیکولر دین ہے؟

تحریر : اسماعیل حسنی

دی بلوچستان پوسٹ

اسلام دین ہے مذہب نہیں، سیکولرزم وُسعتِ نظری کا ایک رویہ، رواداری کا ایک ماڈل یا کشادہ دلی کا ایک ماحول ہے کوئی مستقل نظام نہیں، اس لحاظ سے دیکھا جائے تو ہر مسلمان سیکولر ہوسکتا ہے لیکن ہر سیکولر شخص کےلیے مسلمان ہونا ضروری نہیں، رہی بات اسلام کا بطور دین کی، اس پر قبل ازیں کافی تفصیل سے لکھا جاچکا ہے، تکرار کی ضرورت نہیں، مطلق دین کیا ہے؟ یہ وسیع تر مفاہیم پر مشتمل ایک ہمہ گیر جامع اصطلاح ہے جو تین درجے کی قریب مفاہیم کو گھیر لیتا ہے۔ اس کے مقابلے میں مذہب ہے، مذہب ذہب سے بمع چلنا اور مذہب چلنے کےلیے اس مخصوص رویہ یا تنگ سڑک کو کہا جاسکتا ہے جس پر ایک انسان انفرادی طور پر زندگی کا سفر طے کرے۔

مذہب کے مقابلے دین کی مثال آپ موٹروے کی بھی لے سکتے ہیں جس میں بیک وقت کئی لائنیں ہوتی ہیں، بڑی گاڑیاں بھی ہیں چھوٹی گاڑیاں بھی، کوئی آرہا ہے کوئی جارہا ہے، ایک حصے پر گاڑیاں دوڑ رہی ہوتی ہیں دوسرے حصے پر نارمل اور تیسرے حصے پر سست رفتاری کے ساتھ، جب کہ مذہب کی سڑک پر کوئی لچک نہیں ہوتی، چلنا ہے تو یکساں چلنا ہے اور اگر رکنا ہے تو مکمل رک جانا ہے، مزید تفہیم یہ کہ مذہب چند عباداتی و معاشرتی رسومات اور پوجا پاٹ کا نام ہے اور دین زندگی کے ہر گوشے کو محیط ہے۔ قرآن کریم میں اسلام کو دین کہا گیا ہے مذہب نہیں، اسلام ایک عالمگیر سطح کی دین ہے، اسی عالمگیریت کے پیشِ نظر اسلام جمیع انسانیت کے ساتھ رواداری اور ہمدردی رکھنے کا ایک بہترین سائبان ہے۔

دورِ جدید میں رواداری کےلیے سیکولر ازم کا لفظ رائج ہے، اس بارے مولانا شیرانی اور مولانا وحید الدین خاں کا نقطہ نظر ایک ہے کہ وہ اسلام کو کسی جدید اصطلاح کا محتاج نہیں سمجھتے، یہ بات درست ہے لیکن اگر سیکولرازم کو اصطلاح سے بالاتر ہوکر فی الحقیقت دیکھا جائے تو اس کا عملی نمونہ اسلامی تعلیمات میں بدرجہ اتم ملتا جلتا ہے کوئی تناقض و تباین نہیں۔ بعض لوگ سیکولر سے لامذہبیت مراد لیتے ہیں، میرے خیال میں یہ تصور غلط ہے۔ سیکولرازم سے مراد ”مذہبی معاملات میں غیر جانبداری اور عدمِ تعرض ہے۔“ یعنی صحیح معنی میں وہ حکومت سیکولر کہلائی جاسکتی ہے جو اکثریت رکھنے کے باوجود اپنے مذہب کے آئین، شعائر، رسوم و روایات اور تہذیب و ثقافت سرکاری دبدبہ کے ذریعے مسلط کرنے کی سعی نامحمود نہ کرے اور اگر کوئی حکومت ایسا کرتی ہے تو وہ سیکولرازم کا دعوی رکھنے کے باوجود سیکولر نہیں کہلائی جاسکتی، بنا بریں اب ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہندوستان سیکولرزم کا دعوی رکھنے کے باوجود ایک مذہبی ریاست ہے اور پاکستان اسلام کا دعوی رکھنے کے باوجود ایک مذہبی ریاست ہے، ان دونوں ریاستوں میں زبردست مذہبی کٹرپن پایا جاتا ہے، اس روش میں خود اس مذہب کا زبردست استخفاف ظاہر ہوتا ہے، عقل عامہ کےلیے بھی اور انسانیت کےلیے بھی۔

یہ ایک فکری بد دیانتی اور بدترین درجے کی ذہنی نفاق ہے کہ دورِ جدید میں مذہبی حکومتیں مذہبی رہتے ہوئے بھی اپنا مذہبی ہونا تسلیم نہیں کرتیں، بلکہ سیکولرزم کا نقاب اوڑھ کر اپنے آپ کو متعارف کراتی رہتی ہیں جیسے کہ ہندوستان ہے، یہی حال اس ریاست کا بھی ہے جس کے نظم و دستور کا دعوی تو یہ ہے کہ یہ مذہبی ہے لیکن نظام میں مذہب بحیثیت دین بو تک نہیں البتہ پریشر گروپس کے طور پر مذہبی طبقے کا ضرور استعمال کیا جاتا ہے جیسے کہ پاکستان ہے، سوال یہ ہے کہ کوئی مذہب ہے جو کذب و دروغ کی تعلیم دیتا ہو؟ یقینا نہیں۔ تو ہندوستان میں کیوں جھوٹ بولا جاتا ہے کہ ہم مذہبی نہیں سیکولر ریاست ہے اور پاکستان میں کیوں یہ جھوٹ بولا جاتا ہے کہ ہم سیکولر نہیں بلکہ مذہبی ہیں؟ جھوٹ نہ اسلام میں ہے اور نہ ہی ہندومت میں، ایک طرف مذہب میں یہ ظاہر پرستی کہ دوسرے مذاہب کے لوگ مطعون، معتوب، مقہور، ان کے وسائلِ زندگی مسدود، مساوات و برابری مفقود، نظم مملکت میں حصہ داری محدود اور دوسری طرف سیکولرزم کے معاملے میں اس قدر افراط و تفریط میں مبتلا، یہی فکری بد دیانتی، جھوٹ اور دروغ گوئی کی بدترین نمونے ہیں۔ یہ نہ اسلامی تعلیمات ہیں اور نہ ہی ہندو دھرم!

اسلامی نظم مملکت کی یہ خصوصیت ہے کہ وہ کھل کر اپنے دینی ہونے کی مقر ہوتی ہے اور اتنے ہی کھل کر اپنی مذہبی غیر جانبداری یعنی سیکولرازم کی بھی اعلانیہ اقرار کرتی ہے، وہ اپنے رعایا کے ساتھ خالص دینی حکومت ہے، ان کےلیے نماز قائم کرتی ہے، حلال و حرام کی پابندی کراتی ہے۔ اسلامی حدود و تعزیرات کا ان پر اجراء کراتی ہے، ان سے زکواۃ لیتی ہے، انہیں منظم کرتی ہے۔ ان کی اصلاح کرتی ہے لیکن غیر مذاہب والوں کے مذہبی معاملات اور پرسنل لاء میں کسی بھی طرح کی مداخلت نہیں کرتی، اپنے شعائر و رسوم ، تہذیب و تمدن، لسان و ثقافت سمیت کوئی بھی حکم نہ ماننے والوں پر مسلط نہیں کرتی، انہیں مساوات کی نعمت سے آشنا کرتی ہے۔ انہیں انسانی حقوق مہیا کرتی ہے، ان کے مذہبی معاملات میں کسی طرح کی بھی مداخلت گوارا نہیں کرتی، ان کے تعلیمی، تہذیبی اور ثقافتی ادارے آزاد اور خود مختار ہوتے ہیں، غیر مسلم رعایا کی عبادت خانوں پر کسی طرح کا کنٹرول نہیں رکھتی، مذہبی منصب داروں اور پیشواؤں سے بھی کوئی تعرض نہیں کرتی۔ مذہبی اداروں اور تہواروں کا اقرار و احترام کرتی ہے۔ ان کے ساتھ جو عہد و میثاق ہوگا، ہر قیمت پر اسے بجا لاتی ہے۔ انہیں وسائل زندگی سے محروم نہیں کرتی۔ مسلمانوں کے مقابلے میں غیر مسلمانوں کے ساتھ زیادہ رعایات ملحوظ نظر رکھتی ہے۔ انہیں ہرگز کسی بھی قیمت پر یہ محسوس نہیں ہونے دیتی کہ وہ خود کو دوسرے درجے کے شہری سمجھیں۔

دورِ حاضر میں جو ریاستیں خالص سیکولر ہونے کا ڈھونگ رچاتی ہیں، ان کے ہاں بھی اکثر و بیشتر غیر مذہب کے حامل شہری جو اہلیت و قابلیت، استحقاق اور خدمت کے جذبے اور قابلیت، اہلیت، استحقاق اور خدمات کو نظر انداز کردیا جاتا ہے۔ اپنے ہم مذہب شہری کو ہی ترجیح دی جاتی ہے۔ مثلاً آپ فرانس کو ہی لیں، بڑا سیکولر ہونے کا دعوی کرتا ہے، جہاں موقع بموقع اظہارِ رائے کی آزادی کے نام پر مقدس شخصیات کی اہانت کا ارتکاب کیا جاتا ہے، اس سیکولر ملک میں کوئی یہودی صدر مملکت نہیں بن سکتا۔ روس اور چین جو اپنے دعوے میں سراپا سیکولر بلکہ سیکولر سے بھی ذرا نیچے دہری ریاستیں ہونے کا مدعی ہیں، ان میں کوئی بھی مسلمان اہلیت و صلاحیت کے بنا پر کسی پارٹی کا لیڈر بن سکتا ہے اور نہ ہی مملکت کا صدر اور نائب صدر، ہمارے پڑوس میں جو ملک آٹھ عشروں کے قریب عرصہ سے اپنے سیکولر ہونے کا بانگ دہل یہ اعلان کرتا چلا آرہا ہے اس کی سیکولرزم کا بھانڈا ہم نے شروع میں ہی پھوڑ دیا۔ ایسی ہی بہت ساری نظیریں دنیا بھر کے سیاسیات میں پائی جاتی ہیں تاہم خالص سیکولر ریاستیں نیم سیکولر ریاستوں کی نسبت معاشرہ اور نظام کو رواداری کا ماحول مہیا کرنے میں کافی پیش رفت کرچکے ہیں۔

اسلام نہ خود فریبی کو پسند کرتا ہے، نہ فریب کاری کو، اسلام مذہبی غیر جانبداری پر تو سختی کے ساتھ قائم و دائم ہے لیکن اپنے دینی معاملات میں، وہ غیر مسلم کو مسلم پر ترجیح نہیں دیتا، اپنے اس مسلک پر نہ شرماتا ہے، نہ جھجک محسوس کرتا ہے، جو منصب خالص اسلامی امور سے تعلق رکھتے ہوں، ان پر وہ کسی غیر مسلم کو ہرگز فائز نہیں کرسکتا اور نہ ہی فائز کرنا درست ہوسکتا ہے۔ لیکن جو منصب مفاد عمومی سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کا دروازہ پوری رواداری کے ساتھ غیر مسلموں کےلیے بھی کھلا رکھتا ہے، اب آپ کی ذہن میں فوراََ ہمارے مذہبی طبقے کا یہ روش آئے گا جو وہ وزیر اعظم کے مشیر کےلیے بھی کسی اقلیتی (غیر مسلمان) طبقہ سے کسی اہل کو کسی صورت گوارا نہیں کرتے، سردست عرض ہے کہ یہی تو مذہب ہے دین بالکل نہیں، ہم اسلام کی بطور دین کی بات کر رہے ہیں، دین شریعت اور مذہب ایک مخصوص مزاج اور طبعیت ہے، مذہب سے ماخوذ یہ رویہ ہماری طبعیتیں تو ہوسکتی ہیں لیکن خدا کی شریعت ہرگز نہیں، اسلام میں تو کامل رواداری ہے، جی ہاں! سیکولرزم سے بھی بڑھ کر رواداری، اگر کسی نے سیکولرزم کو اپنی جملہ خوبیوں کے ساتھ دیکھنا ہو تو اسلام کو بطور دین دیکھ لیں، مسلمانوں کو بحیثیت مذہبی پیروکار نہ دیکھیں، اسلام تو ایسے مواقع پر کسی غیر مسلم کو محض اس لیے نظر انداز نہیں رکھتا کہ وہ مسلمان نہیں، اسلام صلاحیت، قابلیت، اہمیت، استعداد اور استحقاق کو دیکھتا ہے مذیبیت اور لامذہبیت کو نہیں، اگر اہل سمجھتا ہے تو ضرور کسی غیر مسلم کی خدمات سے فائدہ اٹھاتا ہے۔
(مزید تعلیمات اور مثالیں آگے عرض کریں گے۔)

مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ایک نظر اسلام کے حقیقی سیکولرازم کے تصور پر بھی ڈال لی جائے کہ آیا واقعی وہ ایک دین ہونے اور معاملات و مسائل پر دینی نقطۂ نظر رکھنے کے باوجود ایک سیکولر ریاست کا مدعی ہے؟ اس لحاظ سے ہمیں لامحالہ تسلیم کرنا پڑے گی کہ جی ہاں ریاستی امور سے متعلق اسلام واقعی سیکولر دین ہے۔ اس کا ثبوت قرآن کریم کی اس آیت سے واضح ہے سردست ہم بطور مقدمہ سب سے پہلے اسلامی ریاست میں کسی غیر مسلم کے ساتھ شرعی سلوک اور رواداری کی مثال کےلیے ایک مقدمہ رکھتے ہیں، سورہ توبہ آیت نمبر 6 میں ہے: (ترجمہ)
”اور اگر ان مشرکین (مکہ کے غیر مسلم) میں سے کوئی تم سے امان طلب کریں تو اس کو امان دے دو تاکہ وہ اللہ کا کلام سن لے، پھر اس کو اس کے امان کی جگہ پہنچا دو ۔ یہ اس لیے کہ یہ ایسے لوگ ہیں جنہیں اللہ کی باتوں کا علم نہیں۔“
تفسیرِ صاوی نے اس آیت کی ضمن میں لکھا ہے کہ دعوت کے بعد غیر مسلم اگر اسلام قبول نہ بھی کرے تو مقامِ امن تک انہیں پہنچا دو تاکہ وہ اطمینان کے ساتھ خالی الذہن ہوکر معاملہ پر غور کرسکے۔ امام جصاصؒ نے اپنی تفسیر میں لکھا ہے کہ حربی کافر (حالتِ جنگ میں مصروف غیر مسلم) اگر امان طلب کرے تو اسے امان دے دینا چاہیے تاکہ وہ اسلام کی صحت و صداقت کے دلائل سن سکے۔ کیوں کہ اسۡتَجَارَكَ کا معنی یہ ہے کہ اگر وہ امان طلب کرے تو امان دو، اس کا مطلب یہ ہے کہ مطالبہ امان کے بعد حربی کا قتل بھی جائز نہیں۔

اسلام کے سیکولر (روادارانہ) چہرے کا اعتراف غیر مسلم مؤرخ بھی کرتے ہیں، اس سلسلے میں سرفہرست کرنل جیمز بیکر کا بیان بطور خاص قابل ذکر ہے جو ترک سلطنت کے فرمانروا سلطان محمدؒ ثانی کے دور کے بارے میں ہے۔ کرنل بیکر لکھتے ہیں کہ:
”جارج برنیکووچ (جو عیسائی مذہب میں گریک چرچ کا پیروکار تھا) نے ایک رومن کیتھولک شخص بیناڈس سے پوچھا کہ اگر تم فتح یاب ہوئے تو کیا کروگے؟“
اس نے جواب دیا:
”تمام باشندوں کو جبراً رومن کیتھولک بنادوں گا۔“
اس کے بعد برنیکووچ ترکی خلیفہ کے پاس گئے اور یہی سوال دہرایا تو وہاں سے جواب ملا:
”میں ہر مسجد کے قریب ایک چرچ بناؤں گا اور ہر شخص کو اپنے اپنے مذہب کے مطابق خواہ مسجد میں سجدہ کریں یا چرچ میں صلیب کے سامنے جھکیں، مکمل آزادی دوں گا۔“
جب اہل سرویا نے یہ سنا تو لٹین چرچ کے محکوم بننے کی بجائے ترک سلطنت کا رعایا بننا زیادہ پسند کیا۔

قرآن کریم کی ایک اور آیت بھی اسلام کی رواداری پر شاہد و عدل ہے۔ سورہ بقرہ 256 میں ہے:
”دین کے معاملے میں کوئی جبر نہیں ہے۔ ہدایت گمراہی سے بالکل الگ ہوچکی ہے تو جس نے طاغوت کا انکار کیا اور اللہ پر ایمان لایا اس نے مضبوط رسی پکڑی جو ٹوٹنے والی نہیں اور اللہ سننے والا جاننے والا ہے۔“
امام ابوبکر الجصاصؒ اس آیت کے بارے میں لکھتے ہیں: –
”یہ آیت بعض انصاری صحابہؓ کے بیٹوں کے سلسلے میں نازل ہوئی ہے جو یہودی ہوگئے تھے، باپ انہیں اسلام قبول کرنے پر مجبور کرنا چاہتے تھے۔“
آگے امام موصوفؒ لکھتے ہیں:
لا اکراہ فی الدین امر فی صورۃ الخبر
(احکام القرآن، جلد 1، صفحہ 164)
”یعنی اکراہ کی آیت خبر کی صورت میں امر ہے“

اسلام نے قتل کی سزا قصاص رکھی ہے، سورۃ المائدة
آیت 45 میں ہے:
”اور ہم نے اس میں ان پر فرض کیا کہ جان کے بدلے جان، آنکھ کے بدلے آنکھ، ناک کے بدلے ناک، کان کے بدلے کان، دانت کے بدلے دانت اور اسی طرح دوسرے زخموں کا بھی قصاص ہے۔ سو جس نے اس کو معاف کردیا تو وہ اس کے لیے کفارہ ہے اور جو اللہ کی اتاری ہوئی شریعت کے مطابق فیصلے نہ کریں گے تو وہی لوگ ہیں جو ظالم ٹھہریں گے۔“
اس قرآنی قانون کے مطابق جیسے کہ اگر ایک مسلمان کسی مسلمان کو قتل کرے تو بدلے میں قتل کردیا جائے گا ایسے ہی اگر ایک مسلمان کسی ذمے کو قتل کرے تو بدلے میں وہ بھی قتل کردیا جائے گا۔

اسلام کی نظر میں ریاست کے عام معاملات میں مسلم اور غیر مسلم مکمل طور پر یکساں ہیں، آیت قصاص کی رو سے ایک غیر مسلم اور مسلم کے مابین کوئی فرق نہیں، قصاص کا حکم دونوں پر یکساں جاری ہوگا، اور اس پرخداوند تعالیٰ کا یہ قول دلیل ہے کہ جو مظلوم قتل ہوا اور ہم نے اس کے ولی کو دعوے کا حق دیا ہے قرآن مجید کی سورہ دہر میں ایک آیت ہے:
”اور وہ مسکین ‘ یتیم اور قیدی کو کھانا کھلاتے رہے ہیں۔ خود اس کے حاجت مند ہوتے ہوئے۔“
علامہ جصاصؒ نے اس آیت سے یہ استشہاد کیا ہے کہ اس آیت میں جنگی قیدیوں سے مراد ، کافر اور مشرک قیدی ہیں، مزید فرماتے ہیں:
”اقتضائے کلام یہ ہے کہ مشرکوں کو صدقہ دینا جائز ہے، ظاہر آیت سے متبادر ہوتا ہے کہ زکوۃ کے علاوہ ہر قسم کے صدقے کی رقم انہیں دی جاسکتی ہے۔ پھر آگے چل کر علامہ موصوفؒ امام ابوحنیفہؒ کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔ امام ابوحنیفہؒ کا قول ہے کہ زکوۃ کے سوا ہر صدقہ اہل ذمہ کو دیا جا سکتا ہے، البتہ زکوۃ اہل ذمہ پر صرف نہیں کی جاسکتی ، مگر کفارہ ، نذر اور صدقہ فطر کی رقومات اہل ذمہ کو دی جاسکتی ہیں ہے۔“
(احکام القرآن، للجصاصؒ، ج: 1، ص: 548)

قرآن کریم میں ایک آیت ہے:
وَلَا تَكُنۡ لِّـلۡخَآئِنِيۡنَ خَصِيۡمًا
(خیانت کرنے والوں کی پاسداری نہ کرو)
امام جصاص احکام القرآن میں لکھتے ہیں کہ:
”اس آیت کی شان نزول یہ ہے کہ یہ اس آدمی کے بارے میں نازل ہوئی، جس نے ایک زِرہ چرالی تھی اور اندیشہ ہوا کہ چوری کھل جائے گی تو ایک یہودی کے گھر میں پھینک دی جب زِرہ یہودی کے گھر میں پائی گئی، تو اس نے جرم سے صاف انکار کردیا اور اصل چور یہودی پر چوری کا الزام دھرنے لگا، مسلمانوں کی ایک جماعت نے یہودی کے مقابلہ میں اس مسلمان کا ساتھ دیا، چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھی مسلمانوں کے قول کی طرف مائل ہوگئے لیکن اللہ تعالی نے آپ کو اصل واقعہ کی اطلاع دے دی اور یہودی کو بری کردیا اور یہودی کے خلاف فیصلہ کرنے سے روک دیا، اس کےلیے استغفار کا حکم دے دیا۔“
یہی رواداری اور سیکولرزم ہے، آج ایک مسلمان کسی یہودی کےلیے ایسے موقع پہ دعا کرنے کا تصور بھی کرسکتا ہے؟ مسلمان کو رہنے دیں فرقے باہم روادار نہیں۔ عدمِ رواداری کا سبب دین نہیں بلکہ مذہبی تعصب ہے۔

اس تاریخی حقیقت پر شاید بہت کم لوگوں کی نظر ہوگی کہ فتح مکہ کا اصل محرک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ عہد تھا جو آپ نے مشرک قبیلہ بنو خزاعہ سے کیا تھا، اگر بنوبکر بنوخزاعہ پر یوریش نہ کرتے اور قریش مکہ خلاف بنوبکر کی مدد نہ کرتے تو شاید فتح مکہ اس قدر جلد عمل میں نہ آتی، قریش کا خیال تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مشرک حلیف کےلیے مسلمانوں کی جان قربان نہیں کریں گے، لیکن جب معلوم ہوا، آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خزاعہ کی حمایت میں جہاد کرنے کو تیار ہیں تو وہ گھبرائے اور ابوسفیان کو بھیجا کہ تجدید صلح ہوجائے مگر وہ تو نہ ہوسکی، اس لیے کہ پیمان شکنوں پھر بار بار اعتماد نہیں کیا جاسکتا۔

حضرت ابوبکر صدیقؓ کے دور میں حاکم یمامہ مہاجر بن امیہ کے پاس چند لوگ دو عورتوں کو گرفتار کرکے لائے، ان میں سے ایک مسلمانوں کے خلاف ہجو سے بھرے ہوئے گیت گایا کرتی تھی، حاکم یمامہ نے سزا قطعِ ید اور دانت نکلوانے کی دی۔ یہ بات حضرت ابوبکر صدیقؓ تک پھنچی تو انہوں نے حاکم یمامہ کو لکھا:
”وہ عورت جو مسلمانوں کی ہجو کیا کرتی ہے، اگر دعوائے اسلام رکھتی ہے تو اس کی تادیب کرنا اور سرزنش کرنا چاہیے تھا، ہاتھ نہ کاٹنا چاہیے تھا، اور اگر ذمی (غیر مسلمہ) ہے تو ہجو مسلمین شرک سے زیادہ برا فعل نہ تھا، جب اس کا شرک برداشت کیا جاسکتا ہے تو اس فعل کو بھی گوارا کرنا چاہیے تھا۔ قصاص کے علاوہ کسی اور جرم میں کسی کا ہاتھ کاٹنا میں مکروہ خیال کرتا ہوں کیونکہ اس طرح کی سزا پانے والے کو ہمیشہ شرم دامنگیر رہتی ہے۔ (تاریخ الخلفاء للسیوطیؒ، ص: 197)

دورِ جدید میں مسلمان سب سے زیادہ اپنا دشمن یہودیوں کو سمجھتے ہیں، دشمنی کا سبب یقینا مذہبی اساس پر ہے، ان ہی یہودیوں کے آباؤ اجداد اس سے کئی گنا زیادہ دشمنی اور تعصب کے ساتھ انبیاء کرام کے دور میں بھی رہیں، خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں بھی، بلکہ اگر یوں کہا جائے تو شاید بے جا نہ ہوگا کہ پیغمبرِ اسلام کے بدترین دشمن یہودی ہی رہے ہیں لیکن ان سے بھی غیر تشریعی امور میں معاہدہ امن کرنے میں آپ نے کوئی تامل نہیں فرمایا چنانچہ تمام تاریخ و سیر کی کتب کا اس بات پر اتفاق ہے کہ آپ کے مدینہ منورہ پہنچنے کے بعد یہود کے ساتھ ایک میثاق معاہدہ ہوا، جو مسلمانوں اور یہودیوں کے مابین ہوا ، اس کے خاص خاص نکات یہ ہیں:
1) بنی عوف کے یہودی اور مسلمان ایک قوم شمار ہوں گے۔
2) طرفین میں سے اگر کسی سے بھی کوئی جنگ آزما ہوا تو دونوں اس کے خلاف نبرد آزما ہوں گے۔
3) طرفین کے مراسم باہم دِگر خیر سگالی اور خیر خواہی پر مبنی ہوں گے معصیت اور گناہ پر نہیں۔
4) دورانِ جنگ یہودی مصارفِ جنگ میں مسلمانوں کے ساتھ برابر شریک رہیں گے۔
5) جن قبیلوں کی یہودیوں سے دوستی ہے، ان کے حقوق کی پاسداری یہودیوں کے برابر مسلمان بھی کریں گے۔
6) طرفین ایک دوسرے کے خلاف کوئی اقدام نہیں اٹھائیں گے۔
7) مظلوم کی بلاتفریق امداد و پشت پناہی کی جائے گی۔
8) اختلاف کی صورت میں فیصلہ خدا اور رسول کے ہاتھ میں ہوگا۔ (سیرتِ ابن ہشام، جلد 1، صفحہ 187)

دورِ حاضر میں مسلمان یہودیوں کے بعد اپنا سب سے زیادہ دشمن عیسائیوں کو سمجھتے ہیں، جب کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عیسائیوں سے بھی معاشرتی رسوم اور ریاستی معاملات سے متعلق معاہدے فرمائے ہیں، ایسے ہی آپ نے نجران کے عیسائیوں کے ساتھ ایک مشہور معاہدہ فرمایا تھا جس کے چند نکات خاص طور پر قابل غور ہے کہ جس وقت مسلمانوں کی ایک طاقتور حکومت بن چکی تھی ، وہ عاجز اور بے دست و پا نہ تھے لیکن معاہدہ جو ہوا ہے تاریخ میں اس کی نظیر ملنی مشکل ہے۔

عموماََ قومی معاہدات میں زبردست اور بالجبروت اقوام کی ایک شرط یہ بھی عائد ہوتی رہتی ہے کہ جب حالات اور مصالح کا تقاضا ہوگا، ہماری فوجیں تمہاری سرزمین پر خیمہ زن ہوکر دشمن سے لڑیں گی، تم کو یہ اجازت بہر صورت دینا پڑے گی اور جو کمزور ہوتا ہے۔ اسے بے چون و چرا یہ شرط مان لینا پڑتی ہے، شاعر نے اسی مزاج کو پیشِ نظر رکھ کر کیا خوب کہا ہے: –
ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات
لیکن رسول اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے معاہدے میں عیسائیوں پر اس طرح کی کوئی شرط عائد نہیں کی۔ معاہدے کی خاص خاص نکات:
1) نجران اور مضافات کے باشندوں کی جان و مال، زمین و جائیداد اور املاک اہل نجران کے حاضر اور غائب، جانورچ قاصد، مورتیاں اور مجسمے اور عبادت گاہیں، اللہ کی امان اور محمد (رسول اللہ) کی ضمانت میں ہیں۔
2) تمہاری موجودہ حالت میں تبدیلی نہیں کی جائے گی۔
3) تمہارے حقوق میں دست اندازی نہیں کی جائے گی۔
4) تمہاری مورتیں (بُت) مسخ نہیں کی جائیں گی۔
5) کوئی اسقف اپنی اسقفیت سے، کوئی راہب اپنی رہبانیت سے اور کوئی واقہ اہنی وقاہیت سے ہرگز برطرف نہیں کیا جائے گا۔
6) جو کچھ کم زیادہ تمہارے قبضے اور تصرف میں ہے، اسے بدلا نہیں جائے گا۔
7) تم سے زمانہ قبل از اسلام کے کسی جرم کا کوئی مواخذہ نہیں کیا جائے گا۔
8) تمہیں پُر مشقت فوجی خدمت پر نہیں بلایا جائے گا۔
9) تم سے کوئی عشر (ٹیکس) نہیں لیا جائے گا۔
10) کوئی بھی لشکر تمہاری سرزمین کو پائمال نہیں کرے گا۔
11) اگر کوئی اپنا حق تم سے طلب کرے گا تو دونوں کے درمیان انصاف کیا جائے گا۔
12) نہ تم پر ظلم کیا جائے گا اور نہ ہی تمہیں ظلم کرنے دیا جائے گا۔
13) تم سے کسی کے خلاف کسی دوسرے کے جرم میں کوئی مواخذہ نہیں کیا جائے گا۔
14) اس معاہدے کے بعد جس نے فساد پھیلانے کی کوشش کی، میری ضمانت سے خارج ہے۔
(یعقوبی، جلد: 2، ص: 64/ فتوح البلدان، ج: 1 ص: 103 تا 105)

اس اور اس جیسے دیگر معاہدوں کی طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ سلم کے عہد گرامی اور حضراتِ خلفائے راشدین کے زمانے میں پوری پوری تعمیل کی جاتی رہی۔ ان میں کسی طرح کا کوئی تغیر اور تَبَدُّل نہیں کیا گیا اور نہ ہی اس جیسے بنیادی معاہدات کو کبھی منسوخ کیا گیا۔

موطا امام مالک حدیث کی سب سے اولین کتاب ہے، بعض علماء کے نزدیک اصح الکتب بعد کتاب اللہ کا درجہ مؤطا ہی کا ہے، اس میں ایک روایت ہے۔ (حدیث نمبر: 1515)
(ترجمہ)
”جابر بن عبداللہ سے روایت ہے کہ ایک اعرابی نے بیعت کی رسول اللہ ﷺ سے اسلام پر اس کو بخار آنے لگا مدینہ میں وہ آپ ﷺ کے پاس آیا اور کہا یا رسول اللہ ﷺ میری بیعت توڑ دیجئے آپ نے انکار کیا پھر آیا اور کہا میری بیعت توڑ دیجئے آپ ﷺ نے انکار کیا وہ مدینہ سے نکل گیا اس وقت آپ ﷺ نے فرمایا مدینہ مثل دھونکنی یا کھریا (بھٹی) ہے کہ جو میل نکال دیتی ہے اور خالص کندن رکھ لیتی ہے۔“
اس موقع پر حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مرتد کے خلاف جنگ نہیں کی بلکہ خاموش رہے، سیرتِ طیبہ کا یہ ماڈل عین قرآنی تعلیمات کے مطابق ہے۔

ایک روایت ہے:
ان اللہ عزوجل لیؤید الاسلام برجال ماھم من اھلہ (طبرانی، حدیث 56)
(اللہ تعالی اسلام کی تائید کا کام کسی ایسے بند سے بھی لیتا ہے جو اہل اسلام میں سے نہ ہوں گے)
یہ روایت بخاری شریف، طبرانی، مسند احمد اور صحیح ابن حبان میں معمولی فرق کے ساتھ ذکر ہے، سوال یہ ہے کہ غیر مسلم سے دین کا کام مسجد کی امامت کا لیتا ہے؟ یقینا دنیوی امور سے متعلق تائید و نصرت کاکام لیتا ہے خواہ اجتماعی لحاظ سے ریاستی نظم کی بات ہو یا انفرادی اعتبار سے جدید سائنسی آلات و ایجادات کی بات جیسے کہ برقی آلات، بجلی، لائٹ، پنکھے وغیرہ یا پرنٹنگ پریس اور سوشل میڈیا کا وسیع ترین پلیٹ جن کے موجد غیر مذہبی لوگ ہیں لیکن ان کی ان ایجادات سے اسلام کی دعوت و اشاعت کو بھرپور مدد و نصرت مل رہا ہے اور حفاظتِ قرآن کےلیے نت نئے مواقع جنم لے رہے ہیں۔

اسلام کی رواداری اور سیکولرازم سے متعلق جب ہم روشن تاریخ کی طرف جھانکتے ہیں تو ہمیں ایک اور بھی زبردست واقعہ ملے گا جو خلفائے راشدین کی مثالی حکومتوں کے بارے میں روشن چراغ کے مانند ہے، نسطوری سوم (یسویاب) اپنے فرقہ کی سرداری پر خلیفہ ثالث حضرت عثمان اور خلیفہ رابع حضرت علی (رضی اللہ تعالی عنہم و ارضاھم) کے عہد میں بھی برابر قائم رہا۔ اس نے لکھا ہے کہ :
”عربوں کو اللہ تعالیٰ نے دنیا کی حکومت سونپی ہے۔ یہ لوگ نصرانیت (عیسائیوں) کے دشمن نہیں ہیں بلکہ ہمارے دین اور مذہب کا پورا پورا احترام کرتے تھے، ہمارے مذہبی پیشواؤں، پادریوں اور کاہنوں کی عزت و تکریم میں ذرا بھی کوتاہی نہیں کرتے، ہمارے دیر اور کنیسے ان کی امداد و اعانت کے مرہونِ منت ہیں؟“
ایک اور اس نسطوری قائد کی تحریر ہے جس سے یہ بات مترشح ہوکر سامنے آتی ہے کہ اس نے زمانہ میں اسقفوں (مذہبی پیشوا جیسے ہمارے مولوی وغیرہ ہیں) کو مکمل اختیارات اپنے دینی، قومی اور نجی معاملات میں حاصل تھے۔ وہ بغیر کسی خوف اور اندیشے کے اپنے مذہبی فرائض انجام دیتے تھے۔
(دیکھیے ”تاریخ خوارج“ عمر ابوالنصر، ص: 49)

قرآن کریم میں یہود و نصاری اور جملہ اہل کتاب کے ذبیحہ سے متعلق ارشاد ہے کہ تم ان کا کھانا کھا سکتے ہو اور وہ بھی تمہارا کھانا کھا سکتے ہیں۔ اس نکتے کی تشریح کرتے ہوئے مولانا سید مناظر احسن گیلانیؒ نے سوالیہ انداز میں لکھا ہے کہ اہل کتاب تو قرآن کے مخاطب نہیں ان کو کیوں کہا کہ تم بھی کھا سکتے ہو؟ مولانا گیلانی اپنی کتاب ”مسلمانوں کی فرقہ بندی“ میں بحوالہ امام ذہبیؒ کی تذکرۃ الحفاظ لکھتے ہیں کہ نو مسلم یہودی صحابی حضرت عبدالله ابن سلامؓ نے جب یہودیت سے اسلام قبول کیا تو چونکہ وہ توریت کے حافظ ہی تھے، رسول اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ ایک رات قرآن کریم کی تلاوت کیا کرو اور ایک رات توریت شریف کی، ایک اور واقعہ کی ضمن میں ابو جلال جونی کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ان کے ہاں قرآن کریم کے ختم ہونے کی بھی تقریب ہوتی تھی اور توریت ختم ہونے کی بھی، قرآن کریم توریت اور انجیل دونوں کی نہ صرف تصدیق کرتا ہے بلکہ ان پر ایمان لائے بغیر اسلام کو معتبر نہیں مانتا۔ آج حالت یہ ہے کہ مغرب قرآن کریم سے متعلق اپنی تعصب سے تھوڑی دیر کےلیے بھی دستبردار ہونے کےلیے تیار نہیں، پھر بھی دعوی ہے کہ ہم سیکولر ہیں اور رواداری کے جملہ حقوق ہمارے ہی نام محفوظ ہیں۔

صرف ایک جھلک دکھانا مقصود تھا کہ ذرا غور کریں کہ اسلام کی اس عظیم رواداری کے تصورات (جنہیں آپ بجا طور پر سیکولرازم کا عنوان بھی دے سکتے ہیں) کی نظیر آج کے جدید عہد میں کوئی ترقی یافتہ سیکولر اور مذہبی معاملات سے متعلق غیرجانبدار حکومت یا ریاست پیش کرسکتی ہے؟


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔