نواب نوروز! شہداء بلوچستان اور ایکس کیڈرز (گیارہواں حصہ) ۔ عمران بلوچ

137

نواب نوروز، شہدا ء بلوچستان اور ایکس کیڈرز
(گیارہواں حصہ)

تحریر: عمران بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

نیشنل ازم کے اہم عنصر یا بقول ان ایکس کیڈرز کے اہم کردار، چلو ان کی اس تعریف کو قبول کرتے ہوئے یہ پوچھنے کی جسارت کرتے ہیں اور بحث میں لاتے ہیں کہ وہ کونسے کردار ہیں جن کا یہ زکر کرنا چاہتے ہیں۔ اور کیا اب بھی بلوچ نیشنل ازم کے کردار سولہ سو چیاسٹھ سے لیکر اٹھارہ سو انتالیس تک اور انیس سو اڑتالیس سے لیکر انیس سو اٹھاون تک یا پھر انیس سو تہتر سے لیکر دو ہزار چھ تک اور پھر دو ہزار تیئیس تک، کیا اب بھی بلوچ نیشنل ازم کے اجزا و کردار واضح نہیں ہیں؟ کیا واقعی اس پر پھر سے سوال اٹھانے اور بحث کی ضرورت ہے یا پھر مقصد کالونیل طرز فکر ہے؟ وگرنہ مزید اسے کسی تشریح کی ضرورت نہیں ہے ہاں البتہ کسی نہیں نے ویسے ہی بلوچ و بلوچی بھائی یا لسانیت کی تعریف دینی ہے تو اس کا مول و مراد بلوچ اچھی طرح سے جانتے ہیں۔

اس سب کے بعد مجھے نہیں لگتا بلوچ نیشنل ازم کوئی تشریح مانگتا ہے ، خاص کر یہ کہ نیشنل ازم کے کردار واضح نہیں ایک سطحی سی بات لگتی ہے، کیونکہ چاہے سیاسیات ہو، اینتروپولوجی یا پھر تاریخ ان سب کے مطابق اس کے اجزا یا پھر چند ضروریات ہو سکتی ہیں، جیسا کہ ملک یا زمین کا ہونا، زمین لینے کی ایک نئی اور کالونیل مثال ہمارے پاس اسرائیل کی ہے ، یا ملک کے حصول کے لیے جدوجہد کرنا، مشترکہ زبان یا زبانیں، مشترکہ منڈی، اب بلوچ کے پاس یہ سب ہزاروں سالوں سے موجود ہیں جو نہیں ہیں اس کے لیے جدوجہد جاری ہے۔

پھر سارگار ماحول سے مراد کیا ہے ماسوائے پارلیمنٹ اور خاکی سے نزدیکی کے؟ اس کے علاوہ یہ کیسا ماحول چاہتے ہیں اور کیوں؟ آج بلوچستان تاریخ کے ایک اہم ترین دور سے گزر رہا ہے، کہیں ان کا مقصد وہ تو نہیں جن کا زکر قسط نمبر، سات، أٹھ اور نو میں کیا گیا ہے؟ یعنی اپنے لئے ایک خاص ماحول پیدا کرنا جس میں پیداگیریت کے سوا اور کچھ نہ ہو۔ اور یہ بغیر بتائے جدوجہد کی بات کرتے ہیں تو اس کا بھی تعین ہو کہ کونسا جدوجہد؟ اور پھر خامیوں کی بھی نشاندہی کرائی جائے ، اس کی تشریح و تعریف کرنے والے حیثیت اور کردار کو پرکھا جانا لازم ہے۔ اول تو بلوچستان میں شہر کہاں ہیں ماسوائے کوئٹہ جیسے مکس آبادی والے بڑے سے دیہات کے، نچلی سطح سے ان کی مراد کیا ہے؟

ویسے جمہوری یا غیر جمہوری جدوجہد کچھ نہیں ہوتا، اوپن پولیٹکس اور انڈر گراونڈ پالیٹکس یا پھر طرز سیاست ، پارلیمانی اور غیر پارلیمانی سیاست اپنا وجود رکھتے ہیں، ہمارے ہاں پارلیمانی اور غیر پارلیمانی سیاست کا بحث دو ہزار چھ کے بعد بلوچ معاشرے میں باقاعدہ طور موضوع بحث بنا البتہ اس سے بہت پہلے بی ایس او میں یہ بحث ان لوگوں نے شروع کیا تھا جو بعد میں نوکریوں کو پیارے ہوگئے اور سیاست سے بے رخی اختیار کرلیا کچھ کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس وقت کے بی ایس او کی قیادت نے اپنی پارٹی قیادت کو بلیک میل کرنے کے لئے ایسی باتیں کی تھی۔تو کیا اب بھی معاملہ زاتی نوعیت اور بلیک میلنگ کا ہے؟ البتہ آج کی دنیا اس بحث کو ایک الگ زاوئے سے دیکھتی ہے، کیونکہ یہ قوموں پر منحصر ہے کہ ان کے سیاسی مسائل کیا ہیں اور وہ ان مسلوں کا حل کیا نکالتے اور کونسا طرز جدوجہد اپناتے ہیں البتہ تاریخی تناظر کا دیکھنا لازم ٹہرا ورنہ تو مارکیٹ میں ڈاکٹر کہور خان کے نام سے بھی ایک کتاب ( قومی سوال بیسوی صدی کے تناظر میں) کے نام سے چھاپ کر آچکا ہے۔

کتاب پر الگ سے ریویو لکھنے کی ضرورت ہے فلحال یہاں میں اپنے موضوع کے تناظر میں بس اتنا لکھو گا کہ یہ کتاب کس قوم و کونسی قومیت بارے لکھی گئی ہے ؟ اب اگر اسے بلوچ قوم کے بارے تصور کیا جائے تو اس میں بلوچ قوم کے حوالے سے کچھ بھی مواد دوربین سے ڈھونڈنے پر نہیں ملتا ہے دوسری طرف اگر اسے مارکسسٹ لیننسٹ تناظر میں پرکھا جائے تو اس بارے مارکس لینن اور اسٹالن کی تحریریں بہت واضح اور موضوع ہیں لیکن پھر وہ دو سو سال پرانا بحث بن جاتا ہے، کتاب کے عنوان سے واضح ہیکہ بیسویں صدی کے تناظر میں، اس طرح تو یہ ڈیڈھ سو سال پرانا بحث ہوا جسے أوٹ ڈیٹڈ کہتے ہیں۔

ایکس کیڈرز کے ایک ادھ پروگراموں میں کہور خان مرحوم شامل رہا اس سے پہلے ان کی طرف سے ایک الگ سیاسی پارٹی بنانے کی بھی باتیں سننے کو ملیں، یہ سب تضادات سے بھر پور سفر ہے ، ایک تو کہور خان کا جو فرضی تصور بیان کیا گیا تھا، پھر نیشنل پارٹی میں شامل ہونا نیشنل پارٹی کا اسے لینا، پریشانی یہ ہے کہ کہور ، یاسین اور نیشنل پارٹی کے حوالے سے جب کہور یاسین کے لڑائی کی بدولت بلوچ نوجوانوں اور بی ایس او پر جو کہر ٹوٹا ، این پی کے موجودہ قیادت اس کا حصہ تھا تو پھر کہور ٹھیک تھا یا یاسین اور یاسین کے مرنے کے بعد اسے لینا یہ سب سیاست کے دوغلا پن اور تضادات ہیں۔

کہور خان کے کتاب کی بابت میں اوپر بیان کرچکا ہوں ،. کتاب سے اگر مارکس، لینن،اینگلز اور اسٹالن کو نکالا جائے تو باقی صرف کہور خان کا نام ہی بچے گا بس یہی ایک چیز کتاب میں مارکس اینگز اور لینن کا نہیں ہے۔

بحث، مباحثہ، واک و ورکشاپ کیوں ؟ جب سب کی اپنی اپنی سیاسی پارٹیاں موجود ہیں۔پھر چاہے تینوں بی این پیز ہوں، پی پی پی ہو پی این پی ہو یا این پی، یا پھر دوسرے تیسرے ان پلیٹ فارمز پر تقاریب کیوں نہیں ظاہر ہے وہ انھیں چھوڑتے نہیں ہیں؟ دوسری بات پھر ادھر ہی آکر ٹہرتی ہے جو سابقہ اقساط میں بیان کیا گیا ہے۔ آخر میں کہنا کہ جی پروگریسو سوچ کی ابیاری کرنا اور پروگریسو کرداروں کا زکر کیا گیا ہے، پروگریسو اور نان پروگریسو کردار کونسے ہیں؟ اور ایسا سوچ رکھنے والے کردار کونسے ہیں، جو طالبعلم نہ ہوں دو کے بجائے تین سال ، چار سال یا چودہ سال ایک طلبہ تنظیم کا سربراہ رہے سلیکٹ ہوکر آئے الیکشن کے بغیر آئے کسی قوم کی آزادی کے جدوجہد کے خلاف ہوں وہ کیسے پروگریسو ہو سکتا ہے، آزادی پسند ہونا آزادی پسند کردار ہی تو پروگریسو ہوسکتاہے۔باقی غلام قوم کی کوئی پارلیمنٹ یا پارلیمانی جدوجہد نہیں ہوتی، پارلیمنٹ جب تک آپ کا اپنا نہ ہو تو ایسی باتیں ماسوائے دھوکے یا دشمن کے اہلکار بننے کے اورکچھ بہی نہیں ہے۔

جاری ہے


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔