نواب نوروز! شہداء بلوچستان اور ایکس کیڈرز (حصہ دوئم) ۔ عمران بلوچ

408

نواب نوروز! شہداء بلوچستان اور ایکس کیڈرز
( حصہ دوئم)

تحریر: عمران بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

15 جولائی کے بارے میں اکثر دیدہ دانستہ یا قلمی بے ایمانی کی وجہ سے بعض لکھاری حقائق کو مسخ کرکے پیش کرتے ہیں یعنی کچھ غوث بخش بزنجو اور یوسف عزیز مگسی کے حوالے سے کہا اور لکھا جاتا ہے یعنی غلط کو صحیح اور صحیح کو غلط کرکے قوم اور تاریخ سمیت آنے والی نسلوں پر مسلط کیا جاتا ہے۔

کہا جاتا ہے کہ جی نواب نوروز نے ایوبی آمریت ون یونٹ یا صرف سابقہ ریاست قلات کے اس وقت کے خان کی گرفتاری کے خلاف مسلح جدوجہد کی تھی، بالکل اسی طرح کہ جی نواب اکبر خان بگٹی نے ڈاکٹر شازیہ خالد کے لئے پہاڑوں کا رخ کیا اور مسلح جدوجہد شروع کی۔

میں سمجھتا ہوں یہ تمام ریاستی مشینری کی چالیں ہیں جس میں بلوچ پارلیمانی سیاسی قیادت، سول بیوروکریسی اور صحافتی منحریفین شامل ہیں۔

سوال یہ ہے جنگ کو پہلے لانے یا بعد میں شروع کرنے چنگاری کی وجہ کچھ بھی ہو پر جہد صرف اور صرف آزادی کے لئے تھی ورنہ مارچ دو ہزار پانچ میں جو کچھ ڈیرہ بگٹی میں ہوا اس سب کا یہ لوگ کیا جواز پیش کرینگے؟ اور اسی جنگ نے ڈیرہ بگٹی، کوہلو سمیت پورے بلوچستان میں ہر بلوچ کے گھر میں اپنے اثرات چھوڑے ہیں، بالکل اسی طرح نواب نوروز انگریز کی قبضہ گیریت اور جبر کے خلاف مسلح مزاحمت کرنے نکلے تھے ، تاریخی حقیقت اور سیاسی سچائی یہ ہے کہ نواب نوروز خان شہید جب ریاست قلات میں دارالامراء کے ممبر تھے( ممبران کو عالیجاہ کہا جاتا تھا) تب انھوں نے الحاق کے بارے منعقدہ سیشن کے دوران اپنی تقریر میں واضح اور دو ٹوک موقف کے ساتھ الحاق کی سختی سے مخالفت کی تھی، اب یہاں اس امر کو زیر بحث نہیں لاتے کہ بزنجو نے اگر تقریر کی تو باقی ممبران نے کیا کہا؟ اور پھر یہ کہ بزنجو اپنے جدوجہد سے بعد میں منحرف ہوا اور باقی اکثریتی ممبران نے نواب نوروز یا پھر اس سے پہلے آغا عبدالکریم خان کےمسلح جدوجہد میں ساتھ دیا تھا (ماسوائے بزنجو اور گل خان کے جس پر الگ سے لکھا جاسکتا ہے)۔

اسی کے تسلسل میں ایوبی أمریت میں خان قلات کی گرفتاری کے علاوہ أپریشنز، ظلم و جبر اور بربریت کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ پورے بلوچستان کے طول و عرض میں شروع ہوا جس سے نہ جھالاوان بچا نہ ساراوان بلکہ مری بگٹی کے علاقے بھی اس کی لپیٹ میں أگۓ، اس ظلم و جبر کے خلاف نواب نوروز نے مسلح مزاحمت شروع کی اور پھر بلوچ قوم نے ان کی أواز پر لبیک کہتے ہوۓ ان کا بھر پور ساتھ دیا، یقینا اس دور کے حساب سے وہ ایک منظم مزاحمت تھی وگرنہ دشمن کو لڑنے کے بجائے قران پاک کا سہارا لینے کی کیوں ضرورت پڑی؟

جاری ہے


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔