عام شہری اور انقلابی جہد کار – زیمل بلوچ

302

عام شہری اور انقلابی جہد کار

تحریر: زیمل بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

انقلاب ایک ایسی سیاسی اصطلاح اور طاقتور جنوں ہے جو سماج میں استحصال ذدہ طبقے کی توجہ اپنی جانب سب سے زیادہ مبزول کرواسکتی ہے۔ لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے کی بنیادی وجہ سماج میں ان حالات کا پیدا ہونا ہے جو انقلاب کو نا گزیر بناتے ہیں جہاں موجودہ نظام مکمل طور پر ناکارہ ہو جاۂے اور اس میں مزید چلنے کی سکت باقی نہ رہے۔ جہاں رجعت کو جدت میں بدلنا ہو وہاں انقلابی تحریکیں جنم لیتی ہیں۔ اور موجودہ نظام کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کی جدوجہد کا آغاز کرتے ہیں موجودہ استحصالی نظام کے مکمل خا تمےکا مطالبہ عوام کو انقلابی تحریک کی جانب کھنچ لاتی ہے۔ انقلابی جدوجہد کے تقاضے معمولی نہیں اس لئے جو بھی انسان انقلابی جدوجہد کا حصہ بننے کی طرف جا تا ہے، تو اس کو اپنی پوری دنیا قربان کرنے کے لئے تیار رہنا چا ہیے۔

ایک غلامانہ سماج میں عام شہری اور ایک انقلابی جہد کار کے درمیان زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے۔ عام شہری انقلابی تحریک کی مدد کر سکتا ہے، تحریک کو اپنا سمجھتا ہے اور اس کے لئے مالی و اخلاقی کمک بھی دیتا ہے، اپنی بساط کے مطابق قربانی دینے کو بھی تیار ہوتا ہے لیکن ایک عام شہری کبھی، بھی انقلابی نہیں ہوسکتا عام لوگوں کی وابستگی تحریک سے جزبات کی بنیاد پر ہوتی ہے۔ اور ان کے جزبات کسی بھی وقت ٹھنڈے پڑ سکتے ہیں۔ کیونکہ عوامی جزبات کے اتار چڑھاو میں سیاسی قوتوں کا کردار ہوتا ہے، اس لئے عام شہری کہیں پر بھی جدوجہد کی کامیابی و ناکامی کا ذمہ دار نہیں ہوتا۔ اگر کسی بھی جہد کار کے ذہن میں ہمیشہ خوف موجود ہوا اور کی وجہ سے وہ فیصلہ نہیں کر پاتے تو ایسے جہد کار انقلابی جدوجہد کا حصہ نہیں بن سکتے وہ معاشرے میں عام شہری اور عام انسان کہلاتے ہیں۔ ایک عام شہری میں وہ صلاحتیں نہیں ہوتی ان کے ذہن میں ایسا کچھ نہیں آتا کہ آنے والے دس سال میں کیا ہوسکتا ہے اور کیا تبدیلیاں ہوسکتے ہیں۔ وہ معاشرے میں ایک غلام کی زندگی بسر کرتا ہے۔ اور ایک انقلابی سوچ رکھنے والا ہی کے سوچ میں پایا جاتا ہے۔ کل جو ہوگا وہ کل دیکھا جائے گا، کل کا ﷲ مالک ہے، چیزیں ٹھیک ہو جائیں گی، لیکن یہ سوچ عام شہری میں نہیں ہوتے۔ عام شہری اپنی ذات، اپنے نام کو ذیادہ اہمیت دیتا ہے اور دل ہی دل میں کہتا ہے میری بدولت ایسے ہوا ہے، میری وجہ سے، ایسے ہوا ہے ایسے نام کو مشہور کرنے کےلیے اور اپنے مطلب کے لیے کرتا ہے۔ ان میں ایسے سوچ جنم لیتے ہیں کہ کسی انسان کے ذیادہ چاہنے والے ہیں اور اس جدوجہد کے اندر جہد کار بنانے کی بجائے اپنے لیے فا لورز بنانے کی کو شش کرتے ہیں تاکہ معاشرے میں کسی نہ کسی طرح اپنا اثر رسوخ قائم کریں ایسے لوگ کبھی انقلابی جہد کار نہیں بن سکتے۔

لیکن انقلابی جہد کار مکمل طور پر باشعور، باعلم اور سنجیدہ لوگ ہوتے ہیں۔ اس لئے وہ اپنا ہر قدم سیاسی جرات کے ساتھ رکھتے ہیں۔ سیاسی جرت کے بغیر ایک انقلابی شخص مکمل نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ انقلابی جدوجہد میں پر سکون ماحول کیلے کوئی بھی امید نہیں ہوتی بلکہ انقلابی جدوجہد کے لئے حالات ہمیشہ مشکل اور سخت ہوتے ہیں۔

انقلابی جدوجہد مکمل طور پر انقلابی ڈسپلن کے بنیاد پر ہوتا ہے بغیر ڈسپلن کے ایک انقلاب شاہد انقلاب ہی نہیں رہتا۔ انقلابی جدوجہد میں لیڈر سے لیکر کارکن تک سب کے لئے اصول ایک ہوتے ہیں۔ سب کو ان اصولوں پر عمل کرنا ہوتا ہے، اور ایسے جہد کار ہوتے ہیں جو مستقبل کو سامنے رکھ کر فیصلے لیتے ہیں اور چیزوں کو مستقل صورت میں چلانے کی کوشش کرتے ہوئے ایسے حالات کو قومی تحریک کے حق میں استعمال کرتے ہیں۔

ایک حقیقی جہد کار کے لئے اس کا نام اس کا ذات کوئی معنی نہیں رکھتا، اور جزبات و احساسات کے بنیاد پر جدوجہد نہیں کرتا اپنی سوچ اور عقل سے کام لیتا ہے۔ اگر پھر بھی عقل اور سوچ کے بجائے محض جزبات کی بنیاد پر فیصلہ کیا گیا ہو تو اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ فیصلہ معروضی حقائق کے بجائے محض ایک فرد کے جزبات کی عکاسی ہے اور زمینی حقائق اور قومی تحریک کے تقاضوں کو سامنے رکھ کر فیصلہ لینے کا اختیار سیاست میں ہمیشہ لیڈرشپ کے پاس ہوتا ہے۔ جو ایک طویل سیاسی عمل سے گزر کر فیصلہ سازی اور قیادت کا اہل بنتا ہے۔

ایک انقلابی جہد کار ہمیشہ ایک مکمل انسان ہوتا ہے وہ ہمیشہ اپنے ہوش و حواس میں ہوتا ہے۔ کیونکہ تحریک کا حصہ بننا اس کے شعور کا فیصلہ ہوتا ہے۔ جبکہ یہ ساری باتیں ایک عام شہری میں نہیں ہوتے جیسا کہ ایک انقلابی جہد کار کو فکری اور شعوری بنیاد پر اتنا مضبوط ہونا چاہیے کہ ہر صورتحال میں وہ ایسے شعوری فیصلے کرلیں جنہیں کوئی بھی قوت کمزور نہ کر سکے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں