مچھرستان سے ایک فرضی خواب کی حقیقت بھری کہانی ۔ اسماعیل حسنی

290

مچھرستان سے ایک فرضی خواب کی حقیقت بھری کہانی 

 تحریر: اسماعیل حسنی 

دی بلوچستان پوسٹ

شبِ گزشتہ جب ہم تھکاوٹ اتارنے بستر پر دراز ہونے لگے تو کان کے صدر دروازے پر کسی مہمان نے دستک دی۔ قبل اس کے کہ ہم دروازہ کھول کر دیکھتے کہ کون صاحب ہے، موبائل سکرین کی لائٹ آن ہوگیا تو کیا دیکھا کہ مختلف طبقات پر مشتمل ایک پورا وفد ہمارے پاس آیا ہے، یہ وفد دراصل بلڈ بینک کا ایک وفد تھا جو مچھروں پر مشتمل تھا۔ وفد اعلانیہ طور پر خون کا چندہ لینے آیا تھا۔ ابھی ہم عذر و معذرت ہی پیش کر رہے تھے کہ وفد کے میر کارواں مچھر نے کاروائی کا آغاز کرتے ہوئے پیشگی ہمیں تسلی دی اور یہ یقین دلایا کہ:

”گھبرانے کی بالکل ضرورت نہیں، بلکہ آپ کو ہلنے تک کی ضرورت بھی نہیں پڑے گی کہ ہم ڈاکٹروں کی انجکشن کی طرح بغیر کسی تکلیف کے اور وہ بھی بغیر کسی فیس کے اپنا کام تمام کریں گے۔“

چنانچہ وفد کے میرکارواں کا تعارفی گفتگو ابھی مکمل بھی نہیں ہوا تھا کہ انکم ٹیکس واجبات کی طرح خون مع اضافی ٹیکس ہم سے زبردستی وصول کیا گیا۔ اخلاقِ مچھرانہ سے متاثر ہوکر ہم نے چندے کی رسید طلب کی تاکہ رات کے بقیہ حصے دیگر مہمانوں (پسوؤں اور کٹھملوں) سے معذرت کرسکیں۔ رسید کا لفظ سنتے ہی ایک ضعیف العمر مچھر جو حلیے سے ریٹائرڈ بیوروکریٹ مچھر لگ رہے تھے۔ یوں گویا ہوئے:

”جی وہی دکھانا تھا آپ نے کہ جی میں انسان ہی ہوں؟ ایسے میں چند قطرہ خون عطیہ کرنے کے بعد ہمیں بھی شاید انسان سمجھ بیٹھے؟ سو سن لو اے بخیل انسان! بگوش ہوش سن لو! ہم مچھر ضرور ہیں مگر انسان ہرگز نہیں، اللہ کا شکر ہے ہم انسان نہیں، ہمیں فخر ہے ہم مچھر ہیں۔ ہم خواہ کتنا ہی ظلم کریں آپ کی طرح نہیں کہ کسی دوسرے کا حق ہڑپ کرلیں، ہم آپ کی طرح اپنا دستخط بھی نہیں بیچتے، ضمیر بھی نیلام نہیں کرتے، چند ٹکوں کی عوض اعتبار بھی خراب نہیں کرتے، ہم جھوٹ نہیں بولتے، رشوت نہیں لیتے، بخل نہیں کرتے، ہم دوسرے کا حصہ بھی وصول نہیں کرتے، ہم نے کٹھملوں اور پسوؤں کا حصہ خود ہی چھوڑ رکھا ہے، پس ہمیں کسی کو رسید دینے کی کوئی ضرورت ہی نہیں، ہم صرف اپنا فطری حق وصول کرنے آئے ہیں، آپ جانیں کٹھمل جانیں۔“

یہ کہہ کر ریٹائرڈ بیوروکریٹ مچھر فارغ ہوگیا۔ ہم ابھی تکلیف سے منہ بسور رہے تھے کہ ایک اور سنیئر ڈاکٹر مچھر آگے بڑھے، ہم نے بھرپور احتجاج بلند کرتے ہوئے معذرت چاہی کہ صاحب! ہم نہ سیاسی لیڈر ہیں اور نہ ہی فوجی جرنیل، نہ سرمایہ دار ہیں اور نہ ہی جاگیردار، ہم نہ سمگلر ہیں نہ ہی بلیک مارکیٹر، ہم نہ فلم ایکٹر ہیں اور نہ ہی ماسٹر و ڈاکٹر، ہم تو مولوی ہیں، مولوی کی ڈکشنری میں لینے کا لفظ ہے دینے کا تو ذکر ہی نہیں، آپ ہم سے کیسے چندہ وصول کر رہے ہیں، اس موقع پہ ہمیں فارسی کا وہ محاورہ یاد آیا کہ ”چشم مور، پائے مار، خیرِ ملا کس نہ دید“ یعنی چیونٹی کی آنکھیں، سانپ کے پاؤں اور مولوی کا چندہ آج تک کسی نے نہیں دیکھا۔ مولویانہ حیل و حجت سن کر سنیئر ڈاکٹر مچھر کی طبعیت بگڑ گئی، انہوں نے ہماری برادری پر طنز کے نشتر خوب برساتے ہوئے کاروائی کا آغاز کیا، کاروائی کے دوران گنگناتے ہوئے جمعہ کے بیان کی طرح انسان کی مذمت پر ہمیں ایک پورا خطبہ سنا ڈالا، وہ کہہ رہے تھے:

”اے چاند پر کمند ڈالنے والا انسان! ہمارے لیے تم انسان ہی ہو، ہزار مولوی بنو ہم تمہیں انسان ہی سمجھتے ہیں، اے انسان! تمہیں شاید یہ بھی پتہ نہ ہو کہ رگوں میں خون کہاں کہاں ہیں؟ آپ میں تو اب خون کا فقط نام رہ گیا ہے، یہ صرف ہمیں پتہ ہے کہ خالص خون کیا ہے اور ملاوٹ کیا ہے۔ آپ کی بددیانتی، دغا بازی، فتنہ و فساد، جھوٹ اور ظلم نے تو تیری خون ہی بگاڑ کر رکھ دی ہے۔ آپ میں خالص خون تو اب ہے ہی نہیں۔ ہمارے ”محکمہٴ تحقیق خونِ انسان“ تو ابھی ایک تازہ رپورٹ بھی شائع کی ہے کہ انسانوں کے خون میں خالص خون کی جگہ فاسد خون نے لی ہے، خون میں فساد کا سبب اولادِ آدم کی منافقانہ مزاج ہے۔ آپ کی گھی میں ڈیزل، چربی، مذبوحہ فارمی مرغی کی پروں سے نکلنے والے کچھرے، گھاس پھونس اور گھاس لیٹ کی ناکارہ عرق جیسی مضر صحت اشیاء شامل ہیں، یہ سب ہم مچھروں نے نہیں بلکہ آپ کے برادر انسان کا کیا کرایا ہے، یہ بھی شاید آپ کو پتہ نہیں کہ آپ کے خون میں دودھ کی جگہ ”خالص دودھ“ اور خشک دودھ نے لی ہے، مصالحوں کی جگہ فرنیچر کا بُرادہ، غذا میں مردار جانوروں کا گوشت، فالتو چربی وغیرہ پائے جاتے ہیں۔ اے بنی آدم! آپ نہیں دیکھتے کہ آپ کو خالص گندم تک میسر نہیں، آپ کے اسمگلر آٹا چینی جلدی جلدی سمگلنگ کرکے حج پہ جانا چاہ رہے ہیں، اس سمگلنگ میں آپ کے صرف محافظ اپنا بھتہ وصول کرتے ہیں، آپ کو کھانے پینے کےلیے خالص اشیاء تک میسر نہیں، آپ کی جسم میں جو کچھ خون دوڑ رہا ہے، اس سے ہم جیسی بے ضرر مخلوق کی زندگی کو بھی خطرات لاحق ہوگئے ہیں۔“

ڈاکٹر مچھر ابھی گفتگو سے فارغ ہی ہوئے تھے کہ ہم نے اس اعداد و شمار اور انسانی مزاج سے متعلق کچھ مزید ان سے جاننے کی کوشش کی، ہماری تیور پڑھ کر ایک شاطر سیاسی مچھر فورا آگے بڑھے اور فریضہ تکلم سنبھالتے ہوئے یوں تقریر شروع کردی:

”اے اولادِ آدم! جب سے آپ میں فیشن کے نام پر اعضائے محرک گناہ کی نمائش ہونے لگی ہے، انسانی خون پر انگوری خون (شراب) کو فوقیت دی جانے لگی ہے، اخوت، ہمدردی، سچائی، سخاوت، شجاعت کی جگہ عداوت، دشمنی، جھوٹ، بخل اور بزدلی نے لی رکھی ہے۔ حلال و حرام، جائز و ناجائز، حق و باطل، صحیح و غلط، امانت اور خیانت کے درمیان فرق ختم ہوگئی ہے، رشوت کو چائے پانی کہہ کر ہر طرف بے ایمانی، ظلم و ناانصافی عام ہوگیا ہے۔ اس صورت حال پر گزشتہ دنوں ہماری میٹنگ ہوگئی ہے، معزز اراکین کونسل اور شرکائے اجلاس نے متفقہ طور پر یہ پالیسی وضع کی ہے کہ اگر ان اسباب کو فی الفور نہیں ختم کیا گیا تو ہم مچھروں اور انسانوں کے درمیان فرق ختم ہوجائے گا۔ ہم نے یہی فیصلہ کیا ہے کہ اب خالص خون تلاش کرنا ہے، اس کےلیے ہم نے ”محکمہ ریسرچ خون آدم“ تشکیل دی ہے، مضر صحت خون رکھنے والے بخیلوں کے گھروں کو ہم مکمل طور پر بلیک لسٹ کر رہے ہیں۔“

فاضل سیاسی مچھر ایک خالص جذباتی انداز میں ہماری جذبات برانگیختہ کرتے ہوئے تقریر کیے جارہے تھے، جس کے ہر ہر لفظ کے ایک ایک حرف بلکہ نُقَط ہم پر ہزاروں ڈنگوں سے زیادہ تکلیف اور بھاری لگ رہے تھے۔ اس دوران ایک اور مچھر نے مائیک سنبھالتے ہوئے اسٹیج پر آئے، یہ صاحب اپنے چال ڈھال سے خالص سوشلسٹ انقلابی مچھر لگ رہے تھے، انہوں اپنی تقریر کا آغاز ان فقروں سے کیا:

“انسان سے زیادہ متعصب، جاہل، احمق مخلوق آج تک میرے پیروں تلے اور ڈنگ کے نیچے نہیں آیا۔ اے اولادِ آدم! تونے کبھی اپنی حماقت، جہالت اور تعصب کے متعلق سوچا بھی ہے کہ اس دنیا میں خود انسان کیسے خون انسان پر پرورش پا رہا ہے؟ غور کیجیے آپ کے انسانوں میں کسی نے سرمایہ داری کے غصب کو وسلیہ کے طور پر اختیار کیا ہوا ہے تو کسی نے جاگیرداری کے ظلم کو ذریعہ معاش بنایا ہوا ہے، ان کے متعلق کبھی آپ نے کسی مزدور و کسان کی خیر و خبر لی ہے یا بس ویسے ان کی حج اور نماز پر مرے جارہے ہیں؟ اے انسان! آپ کے اندر جس نے مذہب کو پیشہ بنایا ہوا ہے ان کے مقابلے میں کبھی کسی غریب کی حالت بھی دیکھی ہے؟ اے بنی آدم! یہ آپ کا انسان ہی تو ہے جس نے سود خوری میں مہارت حاصل کی ہے، کسی نے آفیسر کا روپ دھار کر رشوتیں لے رہا ہے۔ کوئی ڈاکٹر بن کر پانی کا انجکشن لگا رہا ہے، کوئی وکیل بن کر غریبوں، بے کسوں اور بے بسوں سے بھاری بھرکم فیسیں وصول کر رہا ہے، اے اولادِ آدم یہ آپ ہی کے لباس میں جرنیل ہیں جو حب الوطنی اور غداری کی سرٹیفکیٹ بانٹ کر لوگوں کی گردنیں اتار رہے ہیں، سیاست دان خوشنما نعروں کے پیچھے قوم کو بیوقوف بنا کر دوڑا رہے ہیں، تاجر مال میں ذخیرہ اندوزی اور ملاوٹ کر رہے ہیں تو مولوی اور مفتی عقائد و اعمال پر اپنی دکانیں سجائے بیٹھے لوگوں کو مروا رہے ہیں، اے انسان! غور تو کیجیے! آپ ہی ہے کہیں گندم نما جو فروشی کر رہے ہیں تو کہیں چینی آٹے کی سمگلنگ لائسنس کی وصول کر رہے ہیں، اے بنی آدم! آپ نہین دیکھ رہے کہ انسان ہی کے ہاتھوں روز دوسرے انسانوں کی لاکھوں کروڑوں لیٹر خون نہیں بہہ رہے ہیں؟ وہاں تو آپ مطلق خاموش ہیں، کوئی فریاد ہے نہ ہی احتجاج، اے انسان! ذرا اپنی بزدلی بھی تو دیکھ لیجئے، وہاں لاکھوں گیلن خون چوسنے والوں کے خلاف آپ نہ اسپرے کرسکتے ہیں اور نہ ہی ”انسان بھاگ“ جلیبیاں جلا سکتے ہیں، نہ دھونی دے سکتے ہیں اور نہ ہی مچھر دانی کی طرح محفوظ حصار اور قلعے جیسی جالیاں لگا سکتے ہیں۔ وہاں اتنے پیمانے پر بہنے اور خراب ہونے والے خون کے تحفظ کےلیے آپ کے پاس کوئی تدبیر نہیں، یہاں جب ایک چھوٹا سا کمزور مچھر یا بیچارہ کٹھمل تلاشِ کسبِ حلاق کےلیے نکلتا ہے تو آپ اس قدر ڈر جاتے ہو، ہمارے خلاف حفاظتی تدابیر کےلیے سیمینارز کا انعقاد کرتے ہو، سرکاری سطح پر جراثیم کش چھڑکاؤ کرتے ہو، اخبارات میں مضامین لکھتے رہتے ہو، ٹی اور سوشل میڈیا پر ہنگامہ آرائی کرتے ہو، اس سے بڑھ کر حماقت، جہالت اور تعصب کیا ہوتا ہے؟“

سوشلسٹ مچھر کی انقلاب آفریں تقریر کے فورا بعد ایک مزدور مچھر نے نیش زنی کرتے ہوئے مترنم لہجے میں گنگناتے ہوئے یوںکہا:

”اے انسان! تجھ میں اگر ذرہ برابر بھی مچھریت پیدا ہوجائے تو تعصب کی عینک اتار کر دیکھ لیجیے کہ تو آپ کو بخوبی پتہ چل جائے گا کہ تخلیقِ کائنات سے لیکر آج تک معلوم تاریخ میں کسی ایک مچھر یا کٹھمل نے کسی ادنی سے ادنی مچھر یا کٹھمل کا خون چوسنا تو درکنار، اس کی طرف نظرِ بد سے دیکھا بھی نہیں ہوگا۔ آپ ایک طرف خود کو اشرف المخلوقات کہتے ہوئے ذرا اپنے کردار کا بھی تو جائزہ لیں کہ آپ کر کیا رہے ہیں؟ یہ تقابلی جائزہ لینے کے فورا بعد ہم جیسے بے ضرر مخلوق کے بارے میں مزید افواہیں پھیلانا بند کردو، کیوں کہ ہم گھاس پھونس تو نہیں کھا سکتے، خالق ہمارا اور تہمارا ایک ہے، خون انسان ہی ہمارا فطری رزق ہے اور ہماری زندگی کا مدار بلکہ تمام تر انحصار اسی رزق کی تلاش اور حصول پر ہے۔“

اس دوران ایک اور مچھر آئے جو لباس اور ظاہری وضع قطع سے وکیل لگ رہے تھے، سلسلہ تکلم کو جاری رکھتے ہوئے وکیل مچھر کہا:

”اے کاش! دنیا میں انصاف کا کوئی ایسی عدالت ہوتی جہاں کے جج غیر ضروری سوموٹو ایکشن لینے کے بجائے ان غاصبوں، لٹیروں اور بے ایمان انسانوں کے خلاف بے کسوں، غریبوں اور مظلوموں کی اپیلیں بغیر وکیلوں کی فیس کے سنا جاتا، جن کا تذکرہ ابھی ابھی ہمارا ایک دوست کر رہے تھے۔ کیا کریں دنیا کی رسم بدل چکی ہے، انسان کی ستم ظریفی دیکھیے کہ انسانی خون کے خوگر انسان مل بیٹھ کر اقوام متحدہ تشکیل دیتے ہیں، پھر منصف بن کر اقوام عالم کا خون چوسنے کےلیے ظالمانہ حکومتوں کی سرپرستی بھی کرتے ہیں، ظالم حکومتیں انسانوں کے خلاف پالیسیاں وضع کرتے ہیں، اس کردار کے حامل انسان مچھر جیسے کمزور اور کٹھمل جیسے بے ضرر مخلوق سے جائے پناہ تلاش کرکے بھاگ جاتے ہیں، اے آدم خور انسانو! جب آپ لوگوں کو ان کے گھروں سے اٹھاتے ہو، چادر و چار دیواری کا تقدس پائمال کرتے ہو، بوڑھے ماں کے سامنے ان کے لخت جگر پر ظلم کے پہاڑ توڑ ڈالتے ہو، صنفِ نازک (عورت) کو دائرہ انسانیت سے باہر ایک الگ مخلوق سمجھ کر سلوک کرتے ہو، آپ اس کردار کے ساتھ پھر بھی فرشتہ ہو اور ہم ظالم ہیں، آپ زم زم کے دھلے ہو اور ہم گناہوں سے لتھڑے ہوئے، کیوں کہ آپ کے سینے پر بس انسانیت کا تمغہ سجایا گیا ہے، آپ بزعمِ خویش اشرف المخلوقات ہو، جو چاہو کر گزرو، کوئی حساب و کتاب آپ سے نہیں، ڈرو خدا کی عدالت سے۔“

وکیل مچھر اپنے اس پُر تاثیر تقریر کے دوران کاروائی برابر جاری رکھے ہوئے تھے، وہ ابھی مزید انجکشن لگا ہی رہے تھے کہ ہم نے بڑی مشکل سے جان کی خلاصی لی۔ اسی اثناء میں آنکھیں کھل گئی، کیا دیکھا کہ جسم پر نہ کوئی سوزش ہے اور نہ ہی جلن، مچھروں کے اس لیکچرز نے پوری رات انسان کی مذمت اور مچھروں کے اعلیٰ اخلاقی اقدار اور بلند کردار کے تقابل میں گزری۔ صبح اٹھتے ہی دیکھا تو معلوم ہوا:

”خواب تھا جو کچھ دیکھا جو سنا افسانہ تھا”

(چونکہ خواب پر پرچے نہیں کٹتے اور مچھروں کے خلاف قانونی کاروائی نہیں ہوسکتی، اس لیے ہمیں یہ سب کچھ ان کے نام فرضی کردار کے طور پر لکھنے کی جسارت ہوئی، بیانات اپنی جگہ، اپنی صحت کےلیے مچھروں سے احتیاطی تدابیر جاری رکھیں۔)


  1. دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں