سمو عشق کا پیکر ۔ منیر بلوچ

439

سمو عشق کا پیکر 

تحریر: منیر بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

سمو ایک نام نہیں علامت ہے محبت کی۔ سمو پیکر عشق ہے۔سمو نے جہاں بھی جنم لیا محبت کے جذبے کو زندہ کیا، چاہے وہ کوہلو کی سمو مست توکلی کی محبوبہ ہو یا خضدار کی سمو جو عاشق بلوچستان ہو ہمیشہ پیکر عشق کے طور پر یاد رکھے جائینگے۔

عشق گہری محبت کا نام ہے جو چار درجوں سے گزر کر عشق حقیقی میں داخل ہوتا ہے جہاں عاشق دیوانہ بن جاتا ہے اور سوائے معشوق کے اسے کچھ یاد نہیں رہتا۔

سمو بھی عشق کے چار درجوں سے گزر کر عشق حقیقی میں داخل ہوئی اور ہمیشہ کے لئے پیکر عشق بن کر امر ہوگئی۔

وہ کیا جذبہ ہے جو عاشق کو اتنا مضبوط بنادیتا ہے کہ وہ اپنے دل و دماغ سے سب کچھ نکال کر بس محبوبہ کی یادوں میں زندگی گزار لیتا ہے؟ وہ کیا کشش معشوق ہے کہ وہ خوشی خوشی جان سے گزرتی ہے؟

ہم شیریں فرہاد, لیلی مجنوں, سسی پنوں, سمو توکلی اور کہیں ایسی کہانیاں سن چکے ہیں کہ کسی نے پہاڑوں کو کھود کر دودھ کی نہر بہادی, کسی نے تپتے ریگستان میں سفر کیا اور آج محبت کے دیوتا کہلاتے ہیں۔ ان سب کا مقصد تھا کہ وہ اپنے محبوبہ کے ساتھ زندگی گزاریں اور ان کی بانہوں میں ان کی موت واقع ہو لیکن اکیسویں صدی اور غلامی کی زندگی نے عشق کے معنی و مفہوم و مقصد تبدیل کردیا ہے۔آج سمو و شارل کا دور ہے,آج ریحان و سربلند کا دور ہے جو کہتے ہیں کہ ہمارا عشق ہماری زمین سے ہیں اور ہم چاہتے ہیں کہ ہماری محبوبہ ان درندوں کی قید سے آزاد ہو اور ہماری قوم اسی زمین پر آزادانہ زندگی بسر کریں۔

جب کوئی انسان عشق حقیقی کی منزل تک پہنچے اور اسے اپنے معشوقہ کا دیدار نصیب ہو تو وہ لمحہ اسکی زندگی کا یادگار لمحہ ہوتا ہے جسے وہ کبھی فراموش نہیں کرسکتا۔ ایسی ہی محبت فرزندان و دختران بلوچستان کو اپنی سرزمین سے ہے اور آج یہ محبت عشق حقیقی کی منزل تک پہنچ چکا ہے اور یہی عشق حقیقی انہیں ہر طرح کی قربانی دینے کے لئے ہمہ وقت تیار رکھتی ہے۔

اپنی زمین سے محبت فطری عمل ہے اور جب اس عمل کو روکنے کے لئے کوئی اپنی طاقت کا استعمال کرکے آپکے بچوں کو لاپتہ کریں,انہیں شہید کریں ,خواتین اور بچوں کو ذہنی و جسمانی تشدد کرکے روکنے کی کوشش کریں تو وہ رکنے کے بجائے عشق حقیقی میں تبدیل ہوجاتا ہے اور عشق حقیقی سمعیہ و شاری جیسے دختران کو ہی جنم دیتی ہے۔

سمعیہ بلوچستان کی بیٹی تھی جس نے ہر درد کو اپنے رگ و جان میں محسوس کیا جب وہ بچی تھی تو اسکے کزن خاندان کے کئی افراد لاپتہ کئے گئے,کئی افراد شہید کئے گئے اور آج تک وہ افراد لاپتہ ہے۔ ایسا درد دشمن کے لئے نفرت جبکہ اپنے قوم کے لئے محبت کا جذبہ لیکر بیدار ہوتی ہے اور یہ بیداری دشمن کو ملیامیٹ کرکے رکھ دیتی ہے۔

سمعیہ جو فکر و فلسفہ لیکر پیدا ہوئی وہ فکر و فلسفہ عشق حقیقی کا فلسفہ ہے جو ہمارے رہبر و جدید بلوچ مسلح جدوجہد کے بانی استاد اسلم بلوچ کا فکر و فلسفہ ہے, اسی فکر و فلسفے کو مذید مضبوط ریحان جان کے الفاظ و عمل نے ادا کیا۔ریحان جان کے الفاظ کو فدائی سمعیہ یوں بیان کرتی ہے جب ہماری زندگی کے سب سے اہم فیصلے کا موقع آیا اور یہ ہماری زندگی کی ایک نئی شروعات کا لمحہ تھا، جہاں ہم ایک رشتے میں باندھے جانے والے تھے۔ بڑوں اور بزرگوں کے فیصلے کے بعد ریحان جان نے میری رضا جاننے کی کوشش کرتے ہوئے کہا کہ میں تمہیں بتانا چاہتا ہوں اور یہ واضع کرنا چاہتا ہوں کہ جس سفر پہ ہم نکلے ہیں، وہاں زندہ رہنے کا میں کوئی قسم نہیں کھا سکتا اور ہمیشہ تمہارے ساتھ رہنے کا کوئی جھوٹا وعدہ نہیں کر سکتا اور شاید میں تمہیں وہ زندہ گی نہیں دے سکوں گا جو ہر ایک عام انسان کو ملتا ہے کیونکہ اس سفر میں ہم بحیثیت سپاہی اور محافظِ وطن ایک عظیم جنگ لڑ رہے ہیں، جہاں موت ہی ہمارا سب سے نزدیکی ساتھی ہے۔ اور آخر میں یہ کہا کہ کیا ان سب کے باوجود بھی تم میرے زندہ گی کا حصہ بننا چاہتے ہو؟ میں نے ہنستے ہوئے کہا کہ کیا تم بھول گئے کہ ہمارا مقصد ایک ہے؟ میں بھی اسی مقصد کا حصہ ہوں؟ اور اس کم طویل زندگی میں ایک دوسرے کا ساتھی بنے؟

یہ وہ الفاظ ہے جنہیں وطن کا ہر عاشق کبھی فراموش نہیں کریں گا اور اس راستے میں اپنی جان سے گزر کر ایک حقیقی زندگی پالیں گا۔

ویسے بلوچ تاریخ میں سمو ایک تاریخی نام ہے جو محبت کی علامت ہے اور سمو کی قربانی کئی سمو کو پیدا کرنے کا باعث بنیں گا جو عشق حقیقی کے فکر و فلسفے پر کار ند رہ کر اپنے محبوبہ کو پالینگے۔

چوبیس جون کے تاریخی واقعات کے بعد جنت بھی جشن کے سماں سے محظوظ ہورہا ہے کیونکہ جنت میں سچے عاشقان وطن استاد اسلم بلوچ, شاری بلوچ, ریحان بلوچ اور دیگر سمعیہ کا استقبال کررہے ہیں اور اسے مبارکباد دے رہے ہیں کہ آج وہ عشق و محبت کا پیکر بن گئی ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں