ڈاکٹر اشو لال کا انکار ۔ روف قیصرانی

378

ڈاکٹر اشو لال کا انکار

تحرير: روف قیصرانی

دی بلوچستان پوسٹ

بلوچستان کے ایک دوست نے اردو کی ایک مختصر تحریر بھیجی جس کا متن تھا کہ سرائیکی دانشور اور شاعر ڈاکٹر اشو لال نے اکیڈمی آف لیٹرز کے “کمال فن” ایوارڈ دس لاکھ کی انعامی رقم سمیت لینے سے انکار کر دیا ہے۔ اس کا اظہار انہوں سرائیکی میں اپنی پوسٹ کے ذریعے کیا تھا۔ یہ گزشتہ برس کے اکیڈمی آف لیٹرز ایوارڈ سے اشو لال کے انکار کی کہانی ہے۔ لیکن یہ اب کسی تحریر کے ذریعے سرکولیٹ ہوئی اور بلوچستان کے سیاسی منظر نامے میں ڈسکس ہوئی ہے۔ اس طرح کے انکار ہر وقت اور لمحے کے ساتھ ساتھ مزاحمت کے بیج بوتے رہتے ہیں۔ بظاہر یہ ایک معمولی سا واقعہ معلوم ہوتا ہے لیکن اس ایوارڈ کے انکار کی وجوہات میں ڈاکٹر اشو لال کا درج ذیل بیانیہ اس انکار کو غیر معمولی نوعیت کا لازوال قصہ بنا دیتا ہے۔

“میں دوستوں کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ میں ایوارڈ لینے سے انکاری ہوں۔ میں نے اپنی کوئی کتاب اکیڈمی آف لیٹرز کو نہیں بھیجی۔ میری رائے میں میرا انکار (ایوارڈ قبول کرنے سے) زیادہ قیمتی ہے۔ گزشتہ 40 سالوں سے میری ادبی سرگرمی (بطور مصنف) میرا انعام ہے۔ بریکٹ میں رہنا نہیں چاہتے۔ شکریہ۔”

اسی پوسٹ میں ڈان نیوز کے حوالے سے درج ذیل اقتباس بھی درج تھا،
“جب ڈان نیوزکی طرف سے پوچھا گیا کہ اس کے اس اقدام کے پیچھے کیا مقصد ہے، تو آشو لال نے کہا: “گہری ریاست مقامی لوگوں، ہمارے وسائل اور ہماری ثقافت پر ظلم کر رہی ہے۔ ہمارے بچے فاشسٹ حکومت میں لاپتہ ہو جاتے ہیں۔ مقامی لوگوں کو بری طرح نظر انداز کیا جاتا ہے۔ ہم ایک عوام دشمن اور آرٹ مخالف ریاست سے ایوارڈ کیسے قبول کر سکتے ہیں؟”

اشو لال کا درج بالا دلیلوں کے ساتھ ایوارڈ لینے سے انکار کا اعلان ایک غیر معمولی واقعہ ہے۔ اشو لال کسی بھی طور غیر متنازعہ شخصیت نہیں ہیں اور کافی سارے معاملات میں ان سے اختلاف رہا ہے اور کھل کر اس کا اظہار بھی کیا ہے اور آگے بھی کرتے رہیں گے، لیکن اس انکار سے اشو لال نے خود کو ایک مدبر اور زمین سے جڑے ادیب ہونے کا ثبوت دیا ہے۔ موجودہ عہد میں ڈاکٹر اشو لال سرائیکی سیاسی و ادبی اسٹرکچر کے شاید واحد دانشور ہیں جنہوں نے انسانی حقوق کی پامالیوں اور پیور نظریاتی گراونڈ پر ریاست سے ایوارڈ وصول کرنے سے انکار کیا تھا۔

ان کے اس فقرے کہ “گہری ریاست ان کے بچوں کو غائب کر رہی ہے” کو بلوچ،پشتون اور سندھی اقوام یقینی طور پر مسنگ پرسنز کے اپنے مقدمے سے جوڑیں گی۔ اور سرائیکی اور بلوچ سمیت دیگر مظلوم اقوام کے سیاسی، سوشل اور ادبی بانڈز میں مضبوطی آئے گی۔ اس طرح سرائیکی دانشوروں کی نظریاتی جہتیں سرائیکیوں کو دیگر مظلوم اقوام کے ساتھ جوڑنے میں مددگار ثابت ہوں گی۔

قوم پرستی اس وقت کی سب سے خوبصورت سیاسی مزاحمتی سمت ہے۔ اور اس وقت تک ایک اچھے اور خالص قوم پرست دانشور اور قائد کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا جب تک وہ اپنے اردگرد موجود دیگر اقوام کی جدوجہد کو تسلیم نا کرے اور اس کی تکریم نا کرے۔ اپنی سرزمین، قوم، زبان اور ثقافت سے جڑت دیگر تمام قومی شناختی قدروں کیلیے جدوجہد کرتی اقوام کیلیے محبت کا شاخسانہ ہوتی ہے۔ اس وقت پونم طرز پر تمام مظلوم قومیتوں کے ساتھ مل کر جدوجہد کرنے سے معروضی سیاسی مسائل کا حل نکالا جا سکتا ہے۔ اور ڈاکٹر اشو لال سمیت دیگر قوم پرستوں دانشوروں کو اس حوالے سے کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔

ڈاکٹر اشو لال کایہ انکار دراصل اس خطے میں جاری انسرجنسی، جبر، وحشت اور شاونسٹ اپروچ سے انکار کے مترادف ہے۔ ریاست جب ماں کے آئینی کردار سے منحرف ہو کر ڈائن بن کر آدم خور بن جائے تو اشو لال جیسے دانشوروں کے ایسے انکار بہت اہمیت کے حامل ہوجاتے ہیں۔

آفاقی سطح پر لاطینی امریکی اور رشین تاریخ میں فلاسفرز اور دانشوروں نے ایسے انکار کیے ہیں اور اس کی بھاری قیمتیں بھی چکائی ہیں، جس سے سیاسی مزاحمت اور انسانی حقوق کے حوالے سے لافانی ڈائیلاگ شروع ہوئے، جن سے ہر مظلوم قومیت اور خطوں کو جدوجہد کرنے کیلیے درست سمت کا تعین کرنے میں آسانی ہوتی ہے۔ ڈاکٹر اشو لال نے بھی اپنے اس انکار سے ایک کمزور قومیت کی شناختی جدوجہد کو توانائی بخشی ہے۔ سرائیکیوں کو مبارک باد کہ ان کے حصے میں بھی ڈاکٹر اشو لال جیسے آفاقی قدروں کے حامل نظریات پر ریاست کے غیر آئینی اور غیر انسانی معیارات کو رد کرنے والے دانشور موجود ہیں۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں