وطن کے شہزادے ۔ زرینہ بلوچ

456

وطن کے شہزادے

‏تحریر: زرینہ بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

‏عشق ایک ایسی چیز ہے اگر کسی انسان کو عشق ہوجائے تو وہ خود کو بھول کر صرف اپنے محبوب یا محبوبہ کے بارے میں سوچنے لگ جاتا ہے، نا اُسے کھانے پینے کی فکر ہوتی ہے نا سونے اور جاگنے کی بس اسی کے خیالوں میں کھویا ہوتا ہے۔ اگر کوئی شخص آپکی محبت پر بُری نظر ڈالے یا زبردستی چھیننے کی کوشش کرے تو آپ برداشت نہیں کرسکتے۔ اپنے محبت کیلئے کسی سے بھی لڑنے کیلئے تیار ہوجاتے ہیں۔ فرق نہیں پڑتا سامنے والا طاقتور ہے یا اسکی پہنچ دور تک ہے، دکھائی صرف ایک ہی چیز دیتی ہے وہ ہے آپکی محبت جو کسی اور نے چھین لی ہے۔لازم نہیں کہ محبت صرف انسان سے کی جاسکتی ہو، کوئی چیز یا انسان کسی کو حد سے زیادہ پیاری ہو اس سے عشق ہوسکتا ہے۔

‏ہمارے وطن کے شہزادے جنکی محبوبہ مادر وطن ہے۔ اپنے وطن کیلئے ہنستے ہوئے قربان ہونے کیلے تیار ہیں اور اُف تک نہیں کرتے ہیں۔

‏آج تک ہم نے صرف فلموں میں ہیرو کو دشمنوں سے لڑتے ہوئے دیکھا ہے۔ اصل زندگی میں پہلی دفعہ ہم سب نے بلوچستان کے شہزادوں کو شدّت کے ساتھ لڑتے اور وطن کیلئے قربان ہوتے ہوئے دیکھا ہے۔وطن کے شہزادے اپنی جان بچانے کیلئے لڑ نہیں رہے تھے اپنے محبوبہ مادر وطن بلوچستان کیلئے لڑ رہے تھے اور ہنستے ہوئے قربان ہو رہے تھے۔ وہ خود کو اپنے مادر وطن کیلئے قربان کرنے آئے تھے ۔ دشمن کو بتانے آئے تھے کہ ہم تمہارے جبر و ظلم سے نہیں ڈرتے جیسے کہ شہید استاد اسلم نے کہا تھا یہ جنگ دشمن کے ہاتھ میں ہے وہ جتنی شدّت کے ساتھ ہم پر ظلم کرے گا ہم اس سے زیادہ لڑیں گے۔ نوشکی اور پنجگور کے فدائین نے وہ بات ثابت کرکے دکھا دیا جو استاد اسلم نے کہا تھا۔

‏2 فروری کو پنجگور اور نوشکی میں فدائین نے حملہ کیا اور ہیڈکوارٹرز کو اپنے قبضے میں لیا۔ ‏فدائی لفظ کا مطلب ہے فدا ہوجانا قربان ہوجانا۔فدائی وہ جنگجو ہوتے ہیں جو اپنے موت کی جگہ اور وقت خود مقرر کرتے ہیں۔

‏72 گھنٹے کی لڑائی کسی فلم کے منظر سے کم نہیں تھی۔ 72 گھنٹوں کے دوران ان بلوچ فرزندوں کے پاس کھانے کیلئے کچھ باسی روٹیاں تھیں۔ ہم سب نے سنا اور پڑھا ہوگا جب جنگ بدر میں مسلمانوں کی مدد کیلئے فرشتے آئے تھے کچھ ایسا ہی منظر تھا کہ بلوچ فرزندوں کیلئے خدا نے فرشتے بھیجے انکی مدد کیلئے۔

‏ اس دوران ایسا کوئی لمحہ نا گذرا کہ بلوچستان کے ماؤں اور بہنوں نے وطن زادوں کے لئے نیک دعائیں نا کی ہوں، سب دعائیں مانگ رہے تھے۔ سرمچار فتح یاب ہوجائیں اور دشمن نیست و نابود ہوجائے۔

‏وہ لمحہ کسی خوشخبری سے کم نہیں تھا جب شہید زبیر فون کال پر اپڈیٹ دیتا تھا وہاں پر کیا کیا ہو رہا ہے زبیر کی ہنسی اب بھی کیمپ میں گونج رہی ہوگی۔ زبیر کی ہنسی اور جذبے کو دیکھ کر ہم سب جنگ کو بھول کر ہنستے کہ وطن کا شہزادہ کیسے خوش ہے۔

‏وہ لمحہ آزادی کے لمحے سے کم نہیں تھا جب کیمپ میں بلوچستان کا جھنڈا لہرایا گیا تھا اس وقت ہر ایک کے ذہن میں یہی بات تھی کاش ہم بھی وہاں ہوتے تو سب ایک ساتھ ایک آواز ہو کر کہتے “ما چکیں بلوچانی ما چکیں بلوچانی، مئے ترساں زمین لرزیت مئے بھماں کلات جکساں”

‏سب سوچ رہے تھے کاش آج بلوچستان آزاد ہوجائے کیونکہ سب اس ظلم جبر سے تنگ ہو چکے تھے۔ ہر کوئی سکون سے جینا چاہ رہا تھا ۔

‏شہید زبیر کی وہ بات سن کر ہماری ہنسی نہیں رکتی تھی “ما یک تیر جن ءِ چل چل پوجی دور تچاں جون مئے دیما کپتگ ءَ کس نہ ایت چیست نہ کنت ترساں گاراں درست اصل نیاں”

‏ان فدائی حملوں نے ایک تاریخ رقم کردی ایک نئی تاریخ لکھ دیا جو ساتھ پشتوں تک سب کو یاد ہوگا۔ جب بھی بہادری اور جنگ کے قصے سنائے جائیں گے تو ان کا ذکر ہوگا۔

‏جو فدائی تھے وہ بیشتر اعلیٰ تعلیم اور شعور یافتہ تھے انہیں پتہ تھا اس جنگ میں انکی موت بر حق ہے لیکن پھر بھی وہ لڑ رہے تھے۔ ان جوانوں کے مطابق وہ اپنے بقاء کی جنگ لڑ رہے تھے وہ صرف اپنے اوپر ہوئے ظلم جبر کے خلاف لڑ رہے تھے۔ سڑکوں پر بلوچ ماؤں بہنوں کو گھسیٹا جاتا ہے انکے دوپٹے کھنیچے جاتے ہیں اس ظلم جبر نا انصافی کا حساب لے رہے تھے۔ وہ اپنے مادر وطن کے ساحل و سائل کو محفوط کرنے کیلئے لڑ رہیں تھے۔ انہیں کسی چیز عیش و عشرت کی طلب نہیں تھی وہ تو اپنے آنے والے نسلوں کے مستقبل کو بچانے کیلئے لڑ رہیں تھے۔

‏ایک بات واضح ہے کہ کوئی بھی قوم اپنے اوپر ظلم جبر زیادہ دیر تک برداشت نہیں کرسکتا ان سب چیزوں سے تنگ آکر مزاحمت کا راستہ اختیار کر لیتا ہے جس دن قوم نے مزاحمت کرنا سیکھ لیا تب دنیا کی کوئی طاقت اسے زیادہ دیر تک غلام نہیں بنا سکتا نا ہی ظلم جبر کرسکتا ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں