نفسیاتی جنگ اور بلوچ خواتین ۔ بہادر بلوچ

394

نفسیاتی جنگ اور بلوچ خواتین 

تحریر: بہادر بلوچ 

دی بلوچستان پوسٹ

‏دنیا کی تاریخ میں ایسے بہت سے محکوم اقوام اور ریاستیں گزری ہیں جو ایک وقت میں ظالم ریاستی تسلط اور شدید جبر سے گزرے تھے جو قبضہ گیریت کی نہ صرف تشدد کو سہتے تھے بلکہ قبضہ گیروں نے محکوم قوموں کو نفسیاتی طریقوں سے بھی کھوکھلہ کرنے کا بےدریغ استعمال کیا اور محکوم اقوام کو جسمانی اور نفسیاتی طور پر بالکل ختم کرنے کے لیے پیش پیش رہے ہے۔

جسطرح فرانس نے بیسوی صدی میں محکوم الجیریا کے عوام پر جسمانی اور نفسیاتی ڈر اور خوف کا ایک بےباک طریقہ استعمال کیا تھا تاکہ الجیرین قوم کو جہد آزادی سے دستبردار کرسکے لیکن الجیریا نےغلامی کی زنجیروں کو توڑ کر اس وقت کے سپر پاور فرانس کو اپنے وطن سے بے دخل کردیا اور آزادی کا سورج طلوع ہوگیا۔ اسی طرح ایسی بہت سی مثالیں دنیا میں موجود ہیں کہ کیسے کیسے حربے محکوم قوموں کے خلاف استعمال کئے گئے ہیں۔

‏قبضہ گیر ریاستیں محکوموں کی آزادی کو کچلنے کے لیے مختلف طریقوں سے طاقت کا استعمال تو کرتے ہیں، جہاں جسمانی تشدد،جبر، محکوم قوموں کو لاپتہ کرنے اور زندانوں میں مقید کرنے کا حربہ بھی استعمال ہوتا ہے تاکہ محکوم قوم اپنے آزادی سے کنارہ کش ہوجائے یا خاموش ہوجائے تاکہ قابض ریاست کی نو آبادکاری مقبوضہ علاقے میں مضبوط ہوں، لیکن جب قبضہ گیر شعور سے لیس محکوم قوموں پر ریاستی جبر شروع کرتا ہے اور مزاحمت کو کچلنے کی کوشش کرتا ہے تاکہ محکوم پیچھے ہٹ جائے لیکن ریاست تشدد کے ساتھ ساتھ بیک وقت نفسیاتی جنگ بھی شروع کرنے پر آجاتا ہے جہاں محکوموں کے دماغوں پر وار کرتا ہے تاکہ مزاحمت کرنے والوں کو روکا جاسکے۔

نفسیاتی جنگ پروپیگنڈا، خطرات، جنگ کے خطرات، یا جغرافیائی عدم تشدد کے دوروں کو گمراہ کرنے، دھمکی دینے، تباہی، یا دوسری صورت میں دشمن کے سوچ یا رویے پر اثر انداز کرنے کے دوران غیر مسلح تکنیکوں کی منصوبہ بندی کا عملی استعمال کرنا ہوتا ہے دل اور دماغوں کو پکڑنے کے لئے غیر مہلک کوشش” کے طور پر، نفسیاتی جنگ عام طور پر پروپیگنڈے کو اقدار، عقائد، جذبات، استدلال، مقاصد، یا اپنے مقاصد کے رویے پر اثر انداز کرنے کے لئے ملازمت کرتی ہے۔

‏مقبوضہ بلوچستان ایک جنگ زدہ علاقہ ہے جہاں پاکستانی قبضہ گیریت پچھتر سالوں سے جاری ہے اور ان پچھتر سالوں میں ریاست نے بلوچوں پر جتنے ظلم کیے ہیں وہ آج سب کے سامنے ہے لیکن پوری دنیا کو فلسطین و کشمیر کے مظالم دکھائی دیتے ہیں لیکن بلوچستان میں انسانی المیہ اور بلوچ نسل کشی کے اوپر سیاہ پٹی باندھ چکے ہیں جو مہذب دنیا کے لیے ایک سوالیہ نشان ہے۔اور آج بلوچ ایک انتہاہی نازک دور سے گزرہا ہے جہاں بلوچ عورتوں کو لاپتہ کرنے کا ایک نیا رواج شروع ہوا ہے تاکہ آزادی کے سرخیل بلوچوں کو اپنے جہد آزادی سے دستبردار ہوجانا پڑے لیکن یہ ریاست کی بھول ہے بقول “بھگت سنگ” کے قبضہ گیر انسانی جسم کو تباہ کرسکتا ہے لیکن اسکے نظریات کو نہیں”۔

‏پاکستانی ریاست بلوچ کاز کو ختم کرنے کے لیے تشدد کے ساتھ ساتھ نفسیاتی وار کا طریقہ بھی اپنا چُکا ہے جہاں پالتو پارلیمانی ٹولوں اور سرداروں کے ذریعے ریاستی تشدد کو جسٹیفاہی کیا جارہا ہیں تاکہ بلوچ قوم کو نفسیاتی طور پر کمزور کیا جاسکے جو سوچی سمجھے سازش کے تحت اور اپنے ہمنوا ریاستی میر جعفر و صادق جیسے ٹولوں کے ذریعے بلوچستان میں آج دن دناتے کرتا آرہا ہے جو باعث تشویش ہے۔

‏حالیہ دنوں بلوچستان میں ریاستی سنگین جرائم نے بنگلادیش کی یادیں تازہ کررہے ہیں جہاں پاکستانی ریاست نے بنگالی مردوں کے ساتھ ساتھ عورتوں کی بھی عصمت دری کا بازار گرم رکھا تھا اور بنگالی عورتوں کی جبری گمشدگی اور تشدد جیسے دلسوز واقعات آج پوری بلوچستان میں تازہ کئے جارہے ہیں، جسکی مثالیں پوری دنیا میں نہیں ملتی ہے کہ کسطرح ریاست پاکستان اپنے مقامی گماشتوں کے ذریعے بنگالیوں کی طرح آج بلوچستان میں بھی بے دردی سے بلوچوں کی قتل غارت گیری زور شور سے جاری ہے جو ایک بڑی انسانی المیے سے کم نہیں ہے۔

‏قبضہ گیر سر عام تشدد کا استعمال کرکے یہ پیغام دینا چاہتا ہے کہ بلوچ جسمانی اور نفسیاتی طور پر ختم ہوجاہے اور اپنے مقاصد و جہد آزادی سے پیچھے ہٹ جائے، تاکہ ریاستی درندگی کے خلاف یک مشت آواز نہ بنیں، جو ریاست بلوچستان کے گراوُنڈ پر کرنے جارہا ہے لیکن ریاستی تشدد سے بلوچ قوم اپنی ماوں بہنوں و بزرگوں کی بےتحاشہ قربانیوں کی بدولت آج یہ ثابت کرنے جارہا ہے کہ بلوچ قوم اپنے سینوں کو چاک کر کے کھلے عام مرمٹنے کے لیے تیار ہوتے ہیں لیکن اپنے جہد آزادی اور ریاستی تسلط کے خلاف ہروقت اپنے حقوق کے لیے ایک مزاحمت بن کر ڈٹے رہینگے تاکہ ریاستی مظالم کو جسٹیفاہی کیاجاسکے کہ ریاست بلوچوں پر قابض ہے اور یہ قبضہ ظالم اور محکوم کے درمیان جبر کا رشتہ ہے۔‏

آج قبضہ گیر اتنا گر چکا ہے کہ وہ جہد آزادی سے وابستہ بلوچ بہنوں اور بچوں و بزرگوں کو بھی دن دہاڑے سی ٹی ڈی اور اپنے شیطان سرداروں کے زریعے لاپتہ کررہا ہے جو اسکی نفسیاتی کھوکھلہ پن اور ہار کی بڑی وجہ ہے جو بلوچستان میں یہ نام نہاد نئی پالیسی مرتب کرنے جارہا ہے تاکہ بلوچوں کے دل و دماغ میں ریاستی ڈر جگہ بناسکے اور جہد آزادی سے منہ پھیر لے لیکن ریاست کی یہ نفسیاتی جنگ بلوچوں کے خلاف اپنی موت خود مرچکی ہے کہ بلوچ ماوں اور بہنوں و بزرگوں کے زہن و دماغ پہلے سے شعور سے لیس ہوگئے ہیں اور ہر ایک المیہ بلوچوں کو سنگ مرمر کی طرح جسمانی اور دماغی طور پر مضبوط کرتا ہے کہ ریاستی ناجاہز پالیسیز کے خلاف ہمہ وقت تیار ہوتے ہے اور اپنے حقوق کے لیے نبرآزما ہوکر مزاحمت کا آخری راستہ چُنا جائیگا جو آج سمی اور ماہ رنگ کی شکل میں گراوُنڈ پر دکھائی دے رہے ہیں۔

‏بلوچستان میں ریاستی ظلم ایک نہ رکنے والا المیہ بن چکا ہے جو پورے بلوچستان کو اپنی لپیٹ میں لے جا چکا ہے اور اس مظالم سے قبضہ گیر کے ساتھ ساتھ وہ نام نہاد ریاستی بناہے ہوہے پالتو کُتے بھی بلوچوں کی نسل کشی میں پیش پیش ہے اور ریاستی جبر و تشدد کو اپنے پارلیمنٹ اور اداروں کے زریعے جواز پیدا کررہے ہے جو انکے منہ پر تمانچہ ہے تاکہ بلوچوں کا دھیان گُھما سکے لیکن بلوچ ریاستی ایموشن سے خوب واقف ہے کہ پارلیمانی سیاستدانوں سے لیکر عدلیہ و سرداروں تک سب ایک ہی تالی ٹٹو ہے اور یہ سب آپس میں میل جول کر بلوچوں کی نسل کشی اور لوٹ کھسوٹ میں جوق در جوق حقیقت میں ایک ہی سِکّے کے دو رُخ ہیں۔

‏بلوچ نہ صرف اس جنگ کو جسمانی طور پر قبول کرچکا ہے بلکی نفسیاتی طور پر بھی وہ اتنا مظبوط ہوچکا ہے کہ ہماری ماہیں بہنیں روڈوں اور سڑکوں پر ریاستی مظالم کے خلاف یک آواز بن کر مزاحمت کا راستہ اختیار لے چکے ہے جسکی پاداش میں ریاست آج ہمارے عورتوں کو زندانوں میں بند کرکے بلوچ عورتوں کو مزاحمت سے روکنا چاہتی ہے کیونکہ جب عورتیں مزاحمت کا راستہ اختیار کرلے تو قبضہ گیر کے لیے سواہے رسواہی اور ہار کے کچھ نہیں ملیگا جو آج اس نازک دور میں مردوں کےساتھ ساتھ ہماری عورتیں بھی تاریخ رقم کرچکے ہیں۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں