فورسز کے سامنے قرآن رکھا لیکن انھوں نے مار مار کر بے ہوش کر دیا – بی بی بس خاتون

471

3 فروری کو بلوچستان کے ضلع خضدار سے تعلق رکھنے والی 65 سالہ بی بی بس خاتون، ان کے بیٹے، بہو اور دو پوتوں کو کوئٹہمیں ان کے گھر سے جبری طور پر لاپتہ کیا گیا۔

بی بی بس خاتون نے برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کو واقعہ کی تفصیل بتاتے ہوئے کہا کہ ان کے سامنے قرآن پیش کیا لیکنانھوں نے میرے سر پر تین مرتبہ مارا جس کے باعث میں زمین پر گر گئی اور بے ہوش ہوگئی۔

انھوں نے مجھے کھنیچ کر ایک گاڑی میں ڈال دیا۔

بس خاتون  اور ان کے دو پوتوں کو دو روز بعد رہائی ملی جبکہ بہو کو منگل کے روز چھوڑ دیا گیا۔ تاہم ان کا بیٹا محمد رحیم زہریتاحال لاپتہ ہے۔

بی بی بس خاتون نے بتایا کہ تین فروری کی شب رحیم زہری اپنی بیوی کو ہسپتال چیک اپ کے لیے لے گئے تھے اور ان کی عدمموجودگی میں سریاب کے علاقے کلی گشکوری میں ان کے گھر پر دستک ہوئی۔

ان کا کہنا تھا کہ انھوں نے جب دروازہ کھولا تو کئی لوگ ایک ساتھ ان کے گھر کے اندر داخل ہوئے جس کے باعث وہ خوفزدہ ہوئیں۔

انھوں نے بتایا کہ ان میں سے بعض لوگ وردی میں ملبوس تھے اور گھر میں داخل ہوتے ہی انھوں نے گھر کی تلاشی شروع کر دی۔

ان کا کہنا تھا کہہم انھیں کہتے رہے کہ ہم غریب لوگ ہیں اور ہمارے پاس کچھ نہیں ہے لیکن انھوں نے تلاشی لینے کا سلسلہ جاریرکھا اور میرے بیٹے اور بہو کے بارے میں پوچھتے رہے۔

بی بی بس خاتون نے بتایا کہ ان کا بیٹا اور بہو گھر پر نہیں تھے جس کی وجہ سے گھر آنے والے لوگوں نے ان کا انتظار کیا۔

جب ان کے بیٹے اور بہو آئے تووہ ہم سب کو لے جانے لگے۔ میں نے گھر سے قرآن اُٹھا کر ان کے سامنے پیش کیا کہ ہمیں چھوڑ دیاجائے اور مارا نہ جائے۔

ان میں سے ایک نے تین مرتبہ میرے سر پر اپنا ہاتھ زور سے مارا جس کے باعث میں سنبھل نہیں سکی اور گر گئی۔

انھوں نے میرے بیٹے بہو اور پوتوں کو گاڑیوں میں بٹھا لیا اور مجھے بھی کھینچ کر ایک گاڑی میں ڈال دیا۔

بی بی بس خاتون کا کہنا تھا کہ انھیں یہ معلوم نہیں کہ انھیں کہاں لے جایا گیا لیکن اندازاً پونے گھنٹے یا گھنٹے کے بعد انھیں ایکجگہ اتار دیا گیا۔

انھوں نے بتایا کہ انھیں اور ان کے دونوں پوتوں کو ایک کمرے میں رکھا گیا جبکہ بیٹے اور بہو کے بارے میں معلوم نہیں کہ ان کو وہکہاں لے گئے۔

ان کے مطابق وہاں انھیں مارا پیٹا نہیں گیا بلکہمجھ سے پوچھا جاتا رہا کہ آپ لوگوں کا کاروبار کیا ہے۔

میں نے ان کو بتایا کہ ہم تو غریب لوگ ہیں۔ زہری میں گزارا نہ ہونے کے باعث ہم لوگ کوئٹہ آئے اور یہاں میرے بیٹے نے ایک ریڑھی لگاکر سبزی بیچنا شروع کی۔

بی بی بس خاتون نے کہا کہ دو روز بعد ان کو اور ان کے پوتوں کو چھوڑ دیا گیا اور اب اس مظاہرے کے دوران یہ معلوم ہوا کہمیریبہو رشیدہ زہری کو بھی چھوڑ دیا گیا ہے۔

رشیدہ زہری کے والد بھی اپنے داماد اور بیٹی کی بازیابی کے لیے ہونے والے احتجاجی مظاہرے میں شریک تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ مظاہرے سے پہلے انھیںفون آیا کہ ایئر پورٹ روڈ سے آ کر اپنی بیٹی کو لے جائیں۔

جس شخص نے مجھے فون کیا اس نے یہ بھی بتایا کہ اکیلے آنا اور کسی اور ساتھ کو نہیں لانا۔ میں جب ایئر پورٹ روڈ پر نادراآفس کے قریب رکشے سے اترا تو میری بیٹی وہاں تنہا کھڑی تھی۔ وہ مجھے دیکھ کر رونے لگی۔

ان کا کہنا تھا کہوہاں سے میں نے بیٹی کو رکشے میں بٹھا کر گھر پہنچایا اور پھر مظاہرے میں شرکت کے لیے آیا۔

رشیدہ نے بتایا کہ انھیں الگ رکھا گیا لیکن ان پر تشدد نہیں کیا گیا۔ وہ بہت زیادہ خوفزدہ تھیں۔

وہ مزید بتاتے ہیں کہ بیٹی نے مجھے منع کیا کہ میں مظاہرے میں شرکت کے لیے نہ جاﺅں کیونکہ ان کو خوف تھا کہ ان کو کہیںدوبارہ نہ اٹھایا جائے۔

عبدالغفار زہری نے بتایا کہمیں نے بیٹی کو بتایا کہ ہم نے لوگوں کو مظاہرے میں شرکت کی درخواست کی ہے۔ لوگ ہمارے ساتھیکجہتی کے لیے آئیں گے تو پھر ہم کیسے نہ جائیں۔

انھوں نے کہا کہ ان کے نواسوں میں سے بچی کی عمر ڈیڑھ سال ہے اور ماں کی گمشدگی کی وجہ سے دودھ نہ ملنے کے باعث وہروتی رہی ہے۔