سردار کبھی پھانسی گھاٹ تک نہیں جاتے ۔ محمد خان داؤد

288

سردار کبھی پھانسی گھاٹ تک نہیں جاتے

تحریر: محمد خان داؤد

دی بلوچستان پوسٹ

سردار یسوع نہیں کہ مصلوب کیے جائیں

سردار مریم نہیں کہ درد بھرسفر کرے

سردار وہ بلوچ ماں بھی نہیں جو منتظر آنکھیں لیے کبھی نہ سو پائے

سردار وہ سکھی بھی نہیں جس کی آنکھیں ہمیشہ در پر ٹکی رہیں

سردار وہ بلوچ بیٹیاں بھی نہیں جو کبھی دلاسہ بنیں اور کبھی درد

سردار وہ بلوچ ماں بھی نہیں جو ہاتھوں میں مقدس کتاب لیے زندگی کی بھیک مانگتی رہی

سردار کا نہ تو سر دھڑ سے جدا ہوتا ہے۔اور نہ ہی وہ نعش بن کر کنوئیں میں پھینکا جاتا ہے۔

سردار کے سینے میں گولیاں بھی پیوست نہیں ہو تیں۔اس پر کتے بھی نہیں چھوڑے جا تے۔سردار کیا پر اس کا نوکرپر بھی جھوٹا مقدمہ نہیں بنتا۔سردار کا ننگا نعش پانی میں تیرتا نظر بھی نہیں آتا۔سردار کے گریبان پر کبھی کسی کا ہاتھ نہیں جاتا۔سردار کو کبھی ماں کی گالی نہیں دی جا تی۔سردار مائی باپ جو ہے۔

سردار کا منہ کالا نہیں کیا جاتا۔سردار پر جرگوں میں بھا ری جرمانے نہیں لگائے جاتے۔سرداروں کی بہو بیٹیاں جرگوں کی بھینٹ نہیں چڑھتی۔سرداروں کی بیٹیوں پر کوئی بُری نظر نہیں ڈالتا اگر کوئی بُری نظر ڈالے تو اس کی آنکھیں ہی نکال دیں جائیں کیوں کہ سردار مائی باپ جو ہیں۔

سردار بارکھان کے ہوں یا شکار پو ر کے وہ یسوع نہیں کہ پھانسی گھاٹ تک جا ئیں اور پھانسی پر جھول جائیں اور نہ ان کی مائیں وہ مریمیں ہیں کہ یسوع کے پیروں پر چلتی رو تی رہیں

سرداروں کی عورتیں اغوا ہوکر نجی جیلوں تک نہیں پہنچتیں

سرداروں کی بیٹیاں اجتما عی زیا دتی کا شکار نہیں ہو تیں

سرداروں کی بیٹیاں کئی کئی سالوں سے نجی جیلوں میں بند نہیں ہو تیں

سرداروں کی مائیں،بہنیں،بہو،بیٹیاں موقع پا کر ہاتھوں میں قرآن لیے زندگی کی بھیک نہیں مانگتیں

سردار کھیتران کا ہو،نواب شاہ کا ہو یا بارکھان کا ہو وہ یسوع نہیں ہوتا کہ پھانسی گھاٹ پر جائے اور پھانسی پر جھول جائے۔سردار کبھی مقتول نہیں ہوتا۔سردار قاتل ہوتا ہے۔سردار کبھی شہید نہیں ہوتا،سردار تو پھانسی گھاٹ سجاتا ہے۔اور جس کو چاہئے پھانسی پر جھولا دے۔سردار کی موٹی گردن گلوٹین پر نہیں سجتی۔گلوٹین پر تو مظلوم ماؤں۔بہنوں،بیٹیوں کی گردن سجتی ہے اور سردار اپنے ہاتھوں سے گلوٹیں سے ان کی گردنیں کاندھوں سے جدا کر دیتے ہیں۔سردار قہر ہیں جس قہر سے پو ری سندھ اور بلوچ دھرتی لزر رہی ہے۔سرداروں کی بیٹیاں کنوؤں میں زندہ دفن نہیں ہو تیں۔سردار وں کی بیٹیاں کا ری نہیں کی جا تی۔ان کی اسمت دری نہیں ہو تی۔ان پر الزام تراشی نہیں کی جا تی،جب کہ بلوچ دھرتی کی مظلوم بیٹیاں پہلے سرداروں کے ہاتھوں پھر ان کے چمچوں کے ہاتھوں اذیت کا شکار ہو کر زندگی کی جنگ ہا ر جا تی ہیں

بلوچ دھرتی سرداروں کے اس قہر پر رو بھی نہیں سکتی۔دھرتی یا تو بلوچ بیٹیوں کو اپنے سینے میں دفن کر دیتی ہے یا ان کے اگھاڑے(ننگے)نعش باہر پھینک دیتی ہے

بارکھان میں بھی یہی ہوا ہے۔سردار نے تو بلوچ ماں،بلوچ بیٹی کی نعشیں کنوئیں میں پھینک دیں پر دھرتی نے وہ مظلوم نعشیں اگل دیں ہیں۔اب وہ نعشیں ننگا اشتہیار بن کر سوشل میڈیا پر لہرا رہا ہے۔پر ہم جانتے ہیں کہ ان ننگے نعشوں کی عمریں بہت ہی مختصر ہونگی۔اب یہ نعشیں دفن بھی نہیں ہوئی ہونگی کہ سوشل میڈیا کسی اور بات کو لیکر چیخ رہا ہوگا اور بارکھان کی چیخ پہاڑوں کی اُوٹ میں دفن ہو جائیگی۔

پھر ان اداس مقتولین کا کیا ہوگا جو پہلے ہاتھوں میں قرآن لیے زندگی کی بھیک مانگ رہے تھے،پھر بوسیدہ نعش بن کر خالی کنوئیں کو سرخ کر گئے اور اب اداس قبر بن کر بہت دور دھول سب سے بھول جائیں گے!بلوچ دھرتی کیا،بلوچ مائیں کیا پر ملکی قانون کے ہاتھ بھی سرداروں کے گریبانوں تک نہیں پہنچے گے اور سرداروں کی نجی جیلوں میں کوئی اور گران زیادتی کا شکار ہو رہی ہو گی اور کچھ دن بعد اس کا سینہ بھونکتی بندوق سے گھائل ہوگا۔نہ سرداروں پر کتے بھونکے گے اور نہ قانون اور سردار قانون سے استنجا کر کے اُٹھ بیٹھیں گے کیوں کہ سردار مائی باپ ہیں۔

سرداروں کے ہاتھوں مظلوموں کا یہ کوئی پہلا قتل نہیں

پر ہم یہ چاہتے ہیں کہ اب یہ سرداروں کے ہاتھوں آخری قتل ہو

اب سرداروں کے ہاتھوں مظلوم مائیں قتل نہ ہوں پر اب سرداروں کے سر تن سے جدا ہوں

اب مظلوم ماؤں کی تن کٹی نعشیں اندھے کنوؤں میں نہ پڑی ہوں

پر اب سرداروں کی تن سے جدا نعشیں ان کنوؤں میں پڑی نظر آئیں

اب بلوچ مائیں اجتماعی زیا دتی کا شکار نہ ہوپر ان سرداروں کی پگڑیاں روندھی جائیں

اب رات کے پچھلے پہروں پر کتے اس لیے نہ بھونکیں کہ سرداروں کے چمچے اداس نعشیں بند کنوؤں میں پھنکیں پر اب کتے اس لیے بھونکیں کے سرداروں کی نعشیں رات کے پچھلے پہروں میں خالی سڑکوں اور ویرانوں میں پھینکیں جائیں

اب بندوقیں کسی بلوچ ماں بیٹی اور مظلوم بیٹے کو گھائل نہ کرے پر وہ بھونکتی بندوقیں ان تمام سرداروں کے سینے کو گھائل کریں جو دھرتی کی ماؤں کو قتل کرتے ہیں

پر یہ سب کب ہوگا،کب؟

قانون تو سرداروں کی لونڈی ہے اور یہ اس قانون کو ٹشو پیپر کی طرح استعمال کرتے ہیں

یہ جب ہوگا،جب ہمیں دھرتی سے محبت ہو گی اور محبت سرکش ہو تی ہے

جب یسوع پھانسی گھاٹ پر لے جایا جا سکتا ہے

اور مصلوب ہو سکتا ہے

تو یہ سردار کون ہیں؟

ہمیں بس دھرتی کا وفا دار بنانا ہوگا

دھرتی کے رنگ میں رنگ جانا ہوگا

پھر بارکھان کے تمام سردار پھانسی گھاٹ پر پھانسی سے جھول رہے ہونگے

اول مٹی

آخری مٹی

مٹی زندہ باد


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں