گوادر حکومتی دعوے اور زمینی حقائق

509

بلوچستان کے ساحلی شہر گوادر میں آج تیسرے روز سڑکوں پر دھواں، آنسو گیس کی شیل اور جگہ جگہ جلے ہوئے ٹائر پڑے ہوئے ہیں۔ جبکہ کئی مقامات پر فضاء فائرنگ کی آواز بھی گھونجتی رہی۔

شہر کے کئی گلی کوچوں میں مظاہرین موجود ہیں اور مسلح فورسز اہلکار بھی چوکس کھڑے ہیں۔

تاہم حکومت بلوچستان کا دعویٰ ہے کہ گوادر پورٹ کو جانے والے راستے تین دن بعد بحال کردیے گئے ہیں جبکہ گوادر میرین ڈرائیو اور پورٹ روڈ بھی کھل گئے ۔

حکومت کا دعویٰ ہے کہ پسنی میں بھی دھرنا ختم ہوگیا۔

سیکورٹی کے حوالے سے انکا کہنا ہے کہ ایکسپریس وے سربندر کراس پر 500 اور ہاشمی چوک گوادر پر 400 اہلکار سیکورٹی پر تعینات کر دئیے گئے ہیں کاشتی چوک، الجوہر اسکول اور سیدظہور شاہ روڈ گوادر سے مظاہرین منتشر ہوگئے ۔

حکومتی دعوے کے مطابق پسنی زیرو پوائنٹ، گوادر فاضل چوک اور گوادر جیٹی پر بھی سیکورٹی اہلکار تعینات کئے گئے ہیں۔

تاہم حکومتی دعوؤں کے برعکس شہر میں حالات سازگار نہیں بلکہ تیسرے بھی روز کشیدہ ہیں۔

دی بلوچستان پوسٹ نمائندے کے مطابق شہر کے سڑکوں پر ٹریفک معمول سے کم، کاروبار مکمل بند جبکہ مظاہرین جتھوں کی شکل میں موجود ہیں۔

مظاہرین کو کنٹرول کرنے کے لئے فورسز کی بڑی نفری سڑکوں پر بکتر بند گاڑیوں کیساتھ گشت کررہی ہے۔

شہر میں انٹرنیٹ، بجلی اور فون کی بندش سے حکومتی موقف مزید کمزور ہورہی ہے کہ حالات کنڑول میں ہے۔

حق دو تحریک نے کہا کہ پولیس کی تشدد سے اورماڑہ میں انکا ایک کارکن جانبحق ہوا ہے۔

انکے مطابق بدھ کے روز پرامن مظاہرے کے دوران پولیس نے تشدّد کرکے ان کے ایک کارکن دوست محمد کو قتل کردیا ہے۔

یاد رہے کہ کل منگل کو گوادر میں مظاہرین اور پولیس کے درمیان تصادم کے نتیجے میں ایک پولیس اہلکار گولی لگنے سے ہلاک ہوا تھا جس کا الزام وزیر اعلیٰ بلوچستان نے “حق دو تحریک” پر لگایا اور حق دو تحریک کے سربراہ مولانا ہدایت الرحمٰن کے خلاف قتل کا مقدمہ درج کرنے کا عندیہ تھا۔

وزیر داخلہ ضیا لانگو نے پریس کانفرنس میں کہا کہ سی پیک بلوچستان کی ترقی ہے لیکن ہمارے مہمان اور بھائی چائنیز کیخلاف بھی مولانا ہدایت الرحمٰن نے تقریریں کیں جو کسی صورت برداشت نہیں کیا جائیگا۔

جبکہ “حق دو تحریک” اس الزام کو مسترد کرچکی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ شدید فائرنگ فورسز کیجانب سے کی گئی جس کی زد میں خود انکا اہلکار آیا۔

رہنماؤں نے ایک بیان میں کہا کہ “جب ڈی سی گوادر دھرنے کے مقام پر آئے تو اس کی باتوں سے واضح ہوا کہ اب ایف سی اور فوج پولیس و لیویز کی وردی میں دھرنے والوں پر حملہ کرے گی تاکہ لوگوں کی نفرت ضلعی انتظامیہ سے ہو اور ایف سی و فوج بری الذمہ ہوجائیں۔”

آج کئی مقامات سے حق دو تحریک کے 18 کارکنان گرفتار کیے گئے ہیں۔

گرفتاریوں سے متعلق حق دو تحریک کے ایک کارکن نے دی بلوچستان پوسٹ کو بتایا کہ ہمارے کئی ہمدروں کو گھروں سے اٹھایا گیا انکے املاک کو بھی نقصان پہنچایا ہے۔

انکے مطابق بزرگ رہنما حسین وڈایلہ ساتھیوں کے ساتھ گرفتاری کے بعد لاپتہ ہیں۔

حق دو تحریک‘ کے سربراہ مولانا ہدایت الرحمان نے گوادر میں صورتحال کی ذمہ داری حکومت پر عائد کرتے ہوئے کہا ہے کہ لوگوں کے جائز مطالبات کو تسلیم کرنے کی بجائے حکومت نے تشدد کا راستہ اختیار کیا۔

جبکہ حکومت بلوچستان نے گوادر کی موجودہ صورتحال کی ذمہ داری ’حق دو تحریک‘ پر عائد کرتے ہوئے کہا کہ مظاہرین کی جانب سے پورٹ کو بند کرنے کی کوشش کی گئی جس پر پولیس کو محدود کارروائی کرنی پڑی۔

خیال رہے کہ حق دو تحریک‘ کے رہنماؤں کی گرفتاری اور ایکسپریس وے پر تحریک کے احتجاجی کیمپ کو اکھاڑنے کے خلاف پیر کی صبح سے ہی گوادر شہر اور ضلع کے دیگر علاقوں میں احتجاج کا سلسلہ شروع ہوا۔

یاد رہے کہ اس تحریک کے مطالبات میں سب سے بڑا مطالبہ سمندر میں غیرقانونی طور پر مچھلیوں کے شکار کا خاتمہ ہے۔ تحریک کے رہنماؤں کا الزام ہے کہ صوبہ سندھ سے دو ہزار کے قریب ٹرالر بلوچستان کی سمندری حدود میں ٹرالنگ کر رہے ہیں۔

تحریک کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ مچھلیوں کے غیرقانونی شکار کے دوران ممنوعہ جال بھی استعمال کیے جارہے ہیں۔ اس سے نہ صرف گوادر بلکہ مقامی ماہی گیروں کا معاشی قتل ہو رہا ہے اور سمندری حیاتیات کو بھی نقصان پہنچ رہا ہے۔