بلوچستان میں ریاستی این جی اوز کا کردار ۔ بہادر بلوچ

488

بلوچستان میں ریاستی این جی اوز کا کردار

تحریر: بہادر بلوچ 

دی بلوچستان پوسٹ 

‏افریقی دانشور البرٹ میمی اپنی کتاب The Colonizer and the Colonized میں کہتا ہے کہ قبضہ گیر ہروقت کسی محکوم علاقے کو قبضہ کرنے کے لئے جاتا ہے تو اپنے ساتھ اپنے ایکونومسٹ، ٹیچرز،سائنٹسٹ، سیاستدان‏، این جی اوز و انجمنوں اور ساری مشینری بھی لے جاتا ہے تاکہ اُس محکوم قوم کو چاروں اطراف سے کمزور کیا جائے تاکہ محکوم کے وسائل پر لوٹ کھسوٹ کا بازار یونہی گرم ہو۔

‏بلوچستان میں ریاست نے اپنی مشینری کو مضبوط بنانے کے لئے چاروں اطراف سے ایک مکمل فریم ورک تیار کی ہوئی ہے۔ جس میں اس ریاستی مشینری کو تحفظ دینے کے لئے تمام سوشل اداروں کا ایک جال بچھا دیا گیا ہے تاکہ ریاستی کرتوتوں اور ظلم و جبر کو علاقائی سطح سے لیکر عالمی سطح تک جسٹیفائی کیا جائے کہ کیسے ریاست عوام دوست اور مخلص ہے لیکن جب مقامی سطح پر ہر فرد سے پوچھا جائے تو حقائق اس کے برعکس ہیں۔ جہاں جبر، نسل کشی، بے چینی، بےروزگای، بے بسی اور انسانی حقوق کی پامالیوں کے سوا کچھ بھی نہیں ملے ‏گا۔

‏ریاست نے ظلم اور جبر کو جواز دینے کے لئے پورے بلوچستان میں سینکڑوں سرکاری اور پرائیویٹ این جی اوز، سول سوسائیٹی، بلڈ ڈونرز اور انجمنوں کا ایک جال پھیلا دیا ہے جس سے سالانہ کروڑوں کے لاگت فنڈ ان اداروں پر خرچ ہوتے ہیں تاکہ بلوچستان کے اندر بلوچوں کو سوچنے اور سماجی حقائق سے دور کیا جائے اور پھر لوگوں کو مختلف کاموں میں مصروف کرکے حقیقی آزادی سے دور کیا جائے۔

‏بلوچستان میں ریاستی نام نہاد پروپگنڈوں نے اپنی جعلی این جی اوز سوشل میڈیا اکاؤنٹس اور پیجز کے ذریعے سوشل میڈیا سے لیکر پرنٹ میڈیا تک استعمال کرکے یہ تاثر پیش کیا جارہا ہے کہ ریاست بلوچستان کو پیرس بنا رہا ہے۔ عالیشان تعلیمی نظام و آسائش اور بہتر سہولیات جیسے منفی پروپگنڈوں کا ایک ہی مقصد دنیا کے سامنے دھول جھونکنے کے سوا کچھ نہیں ہے، سوائے بلوچستان کے امیج کو دنیا کے سامنے پیش کیا جائے لیکن جب بلوچستان کے اندر حقائق جاننے کے لئے گراوُنڈ پر آتے ہیں جس سے حقائق مکمل اس کے برعکس ہیں، سوائے ظلم و جبر، محکومیت، صحت اور بیروزگاری کا فقدان اور ڈیلی ٹریفک حادثات جیسے المیے کے سوا کچھ دیکھنے کو نہیں ملے گی۔

‏حالیہ دنوں ایک بلوچ صحافی کیا بلوچ نے اپنے ٹویٹر اکاوُنٹ پر ایک ریاستی این جی او وائس اف بلوچستان کے سیاہ کرتوتوں سے پردہ اٹھاتے ہوئے تمام چیزوں کو سامنے لایا کہ اسطرح کے ادارے کیسے کیسے ریاستی ایما پر اس طرح کے این جی اوز کام کررہے ہیں اور ان کا مقصد کیا ہے۔ جہاں آرمی کی نگرانی میں سالانہ کروڑوں کی لاگت اِن این جی اوز اور انجمنوں پر خرچ کیے جاتے ہیے تاکہ بلوچوں کو انکے حقیقی مسائل کو چالاکی سے روکا جائے۔

‏ایک اٹالین نیو مارکسسٹ اور دانشور انٹونیو گرامچی جو اپنی Prison and Notesbook میں جہاں مسولینی جیسی فاشسٹ اور ظالم نظام کے خلاف لکھا ہے، کہتا ہے کہ ریاست اپنی تشدد اور ظلم کو جواز دینے کے لئے مقامی این جی اوز اور سیول سوسائٹی کا سہارا لیتا ہے تاکہ عوام کا جو consent ہے وہ ظلم اور تشدد جیسی آئے روز واقعات سے ان کا ذہن این جی اوز اور سیول سوسائٹی کی طرف راغب ہوسکے جنہیں ریاست یہ ٹاسک دیتا ہے کہ این جی اوز اور سول سائٹی ایک ڈھال کے طور پرعوام کی روز مرہ کی زندگی کو مصروف رکھ سکیں تاکہ عوام حقیقت سے بالکل ناواقف اور دور ہوجائیں۔

‏آخر میں، دنیا کے اندر جتنی بھی آزادی کی تحریکیں چلی ہیں جہاں ایک ظالم اور مظلوم کا سامنا ہو، وہاں ظالم اپنی ساخت اور ظلم کو دوام بخشنے کے لیے طرح طرح کے نام نہاد ذرائع چاہے وہ سوشل انسٹیٹیوشن کی شکل میں ہوں یا جعلی سیاستدانوں کی، ریاست انہیں ٹشو پیپر کی طرح استعمال کرکے گٙٹر کے اندر پھینک دیتا ہے، جہاں آج پاکستانی ریاست بلوچستان میں اپنے گماشتے پارٹیوں اور این جی اوز کے ذریعے پھیلا رہا ہے اور اسی طرح بلوچستان پر اپنی قبضہ گیریت کو جواز فراہم کرنے کے لیے نئے نئے چہروں اور نئے نئے اداروں کے قیام سے بلوچستان میں اپنی درندگیوں، استحصال اور جبر کو انہی لوکل ادروں کے توسط سے جواز بنانے کی تگ دو میں لگا ہے۔

جنہیں کاوُنٹر کرنے کے لیے بلوچوں کو علم اور شعور سے لیس ہوکر ان نام نہاد اداروں کو جاننا ہوگا اور پوری دنیا کے سامنے دکھانا ہوگا تاکہ ایک روشن خیال آزاد بلوچستان کے لیے ریاستی تسلط اور قبضہ گیریت کو پوری دنیا کے سامنے عیاں کیا جاسکے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں