نڈر جنگی کمانڈر، عبدالخالق عرف سردو ۔ گورگین بلوچ

736

نڈر جنگی کمانڈر، عبدالخالق عرف سردو

تحریر: گورگین بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

دنیا کی تاریخ پر ایک نظر ڈالیں تو ایسے کئی شخصیات ملتے ہیں، جن کے بارے میں پڑھ کر انسان کے اندر ایک نئی امید، رونق، مستقل مزاجی، زہنی سکون، اور لاتعداد خیالات جنم لیتے ہیں۔ اسی طرح بلوچستان ایک خوبصورت و زرخیز دیش ہے، اس کے اندر کئی شخصیات ایسی ہیں جنہوں نے اپنی مادر وطن اور قوم کیلئے جان کا نذرانہ پیش کیا، لیکن کئی ایسے گمنام شہید اور نرمزار سرفروش سرمچار ہیں کہ وہ مصنفوں کی قلم کی مدد سے سامنے نہیں آتے، وجہ یہ ہے کہ لکھاریوں نے اکثر انہی شخصیتوں کی طرف توجہ دی، جنہیں وہ خود اچھے طریقے سے جانتے ہیں۔

جن شخصیتوں کی نامی سامنے آتے ہیں وہ اتنے ہیں کہ کسی انقلابی جدوجہد میں شاید آئے ہوں۔ صاف ظاہر ہے کہ بلوچ سرمچاروں نے کسی بھی طاقت کے سامنے سر نہیں جھکا کر دشمن کو خوش آمدید نہیں کہا بلکہ وہ ہمیشہ اپنی دھرتی ماں کو بچانے کیلئے پہاڑوں کی طرف روانہ ہوئے ہیں۔ دن رات بغیر کھانے کے دشمن سے لڑتے رہے ہیں۔

کئی آزادی پسند لوگ شہید ہوئے اور لاتعداد سرمچار ابھی تک اپنے فلسفہ و حکمت عملی کے ساتھ کھڑے ہوکر دشمن کو للکار رہے ہیں۔ میر احمد یار خاں سے لیکر آغا عبدالکریم تک،بابا نوروز خان سے لیکر بابا نواب اکبر بگٹی تک، بابا خیر بخش مری سے لیکر ڈاکٹر اللہ نزر اور بشیر زیب تک، فدائی ریحان جان و گودی شاری تک اور اسی طرح جنگ جاری و ساری ہے۔

اس جنگ میں کئی بلوچ نوجوان بوڑھے مرد اور عورتیں شامل ہوتے رہے ہیں۔ جن میں سے کچھ ایسی شخصیتیں ہیں کہ وہ گوریلہ حکمت عملی کا علم فطری طور پر رکھتے ہیں، وہ نہ تعلیم یافتہ ہیں نا ہی وہ کسی سے اتنی تربیت لے چکے ہیں۔

ایک مثال لیں:مشکے سے تعلق رکھنے والا نوجوان اور با صلاحیت انقلابی سوچ و فلسفہ کے مالک شہید عبدالخالق عرف سردو ہیں، جن کی تعریف شاید ہر کسی کو پتہ ہو۔ وہ بلوچ لیڈر ڈاکٹر آللہ صاحب کے علاقے میں پیدا ہوئے تھےجہاں وہ 2009 سے بلوچ سرمچاروں کا ہمراہ رہے۔ اپنی انقلابی سوچ و فلسفہ کی بنا پر جنگ کے میدان میں شیر کی طرح دوڑ کر نوآبادکاروں کو اسی طرح کچل کچل کر مارتے جس طرح خونخوار نوآبادیاتی آرمی ہمارے معصوم لوگوں کو مارتے ہیں۔ سردو کسی سے ڈرتا نہیں تھا لیکن عزت کرتا تھا۔ دن رات ان کے لیے معنی نہیں رکھتے بلکہ معنی صرف ان کی جدوجہد ہی رکھتا تھا کہ وہ ہمیشہ جدوجہد کرتے رہے۔ سردو ایک نڈر سرمچار اور قابل ذکر جنگی کمانڈر تھے وہ کئی حملوں میں کمان سنبھال کر دشمن کو گولیوں سے شکست دیتے۔

سردو اپنے بھائی کے ساتھ پہاڑوں کی چٹانوں پر دشمن کا انتظار کرتے تھے، جب وہ میدان میں آتے تو ہمیشہ دشمن کو گولیوں اور بمبوں سے کچل کر جاتے۔ وہ تو ایک شیر تھا۔ وہ اتنے تعلیم یافتہ نہیں تھے جس طرح باقی ان کے ساتھی رہے ہیں لیکن وہ سب چیزوں کو اچھی طرح سمجھنے کی قابلیت رکتھے تھے۔

وہ یہ ضرور بولتے کہ جب جنگ کا مقصد حریف ریاست کی تباہی اور خودمختار ملک ہو تو ہمیں نوآبادکاروں کے قتل کا حق اسی وقت تک ہے جب تک دشمن کے ہاتھوں میں ہتھیار ہو۔ اگر وہ کسی دشمن سے دوچار ہوتے تو وہ توپوں اور اپنے سنپر کی گولی سے وار کرتے اور وہ اتنی نزدیک جاکر چیختے کہ آواز دشمن کے کانوں تک پہنچ جاتا وہ بولتے” ہتھیار پیھنکو نہیں ماریں گے ۔” یہی اسکا فلسفہ تھا کہ جب تک دشمن ہتھیار نہیں پھینکتا میں لڑتا رہونگا۔ وہ ہولناک حالات سے خوشی خوشی اپنی جنگی حکمت عملی سرانجام دے کر دشمن کا منہ کالا کرنے کے بعد پہاڑوں کا رخ کرتے۔

اکثر کہا جاتا ہے کہ ایسے حملوں میں افواج کو اتنی مجبور کرتے کہ آئندہ وہ اسی رستہ پر جانا اپنی لیے خطرہ سمجھتے تھے کیونکہ وہ ہمیشہ میدان عمل میں رہتے۔ مشکے تنک کور میں پاکستانی قابض فوج کے ساتھ لڑ کر 13 دسمبر 2015 کو رشید عرف پیٹر سکنہ واشک شہید ہوئے تھے۔



دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں