مشرق وسطیٰ میں ناکام انقلابات اور ایران میں عوامی اُبھار ۔ کمبر بلوچ

822

مشرق وسطیٰ میں ناکام انقلابات اور ایران میں عوامی اُبھار

تحریر: کمبر بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

بائیس سالہ کردش لڑکی مهسا امینی کی اخلاقی پولیس ( گشت ارشاد ) کے ہاتھوں ہلاکت کے بعد ایران میں خامنہ ای کی سخت گیر ملا رجیم کے خلاف اور زن، زندگی اور آزادی کے لئے لاکھوں لوگ ملک بھر میں بڑے پیمانے پر احتجاجی مظاہرے کررہے ہیں۔ عوامی احتجاج کو کچلنے کے لیے پولیس کی فائرنگ سے سینکڑوں افراد ہلاک ہوچکے ہیں اور ہزاروں گرفتار کر لیے گئے ہیں۔ ایران میں عوامی اُبھار مشرق وسطیٰ میں ایک دہائی سے آمریتوں کے خاتمے کیلئے ہونے والے بغاوتوں کا تسلسل ہے جو تیونس سے شروع ہوا اور لبنان، عراق اور ایران میں جاری ہیں۔

ایک دہائی قبل تیونس سے شروع ہونے والے انقلاب نے مصر، لیبیا، بحرین، شام، لبنان اور یمن کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ لاکھوں لوگ آمرانہ حکومتوں کے خلاف اور تبدیلی کے لیے سڑکوں پر نکلے جو عرب سپرنگ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ عرب سپرنگ میں انقلاب صرف مصر اور تیونس میں کامیاب ہوا۔ مصر میں فوجی آمریت کی خلاف اخوان المسلمین کی جڑیں سماج میں مضبوط تھیں جو 1920 سے مصر میں اسلامی نظام کے لیے جدوجہد کر رہی ہیں۔ اخوان سے وابستہ پارٹی انتخابات میں کامیاب ہوکر حکومت بنا چکا تھا لیکن ایک سال بعد ہی فوجی جنتا نے بغاوت کر دی اور منتخب حکومت کو ختم کرکے فوج کی حاکمیت قائم کر دی۔ تیونس میں ایک دہائی کی جمہوری حکومت کے بعد ایک بار پھر شخصی آمریت قائم ہو رہی ہے۔

عرب سپرنگ کا آغاز دسمبر دو ہزار دس کو محمد بوعزیزی کی پولیس کے ناانصافیوں کے خلاف خود سوزی سے ہوا اور عوامی مظاہروں کا آغاز ہوا جس میں لاکھوں لوگوں نے حصہ لیا اور تیونس میں بن علی کی 23 سالہ حاکمیت ختم کردی ۔ فروری دو ہزار گیارہ میں عوامی انقلاب کا دوسرا نشانہ مصر میں 30 سال سے آہنی ہاتھوں سے حکومت کرنے والے حسنی مبارک بنے، مصر میں لاکھوں لوگوں نے تحریر اسکوائر کو انقلاب کا مرکز بنا لیا اور آمریت کے زنجیروں کو توڑ دیا گیا۔

ہمسایہ ممالک میں انقلاب کے اثرات سے متاثر ہوکر ہزاروں لوگ لیبیا کے حاکم معمر قذافی کے خلاف نکلے لیکن مغربی ممالک نے عوامی مظاہروں سے فائدہ اٹھا کر لیبیا میں معمر قذافی مخالف قوتوں کو منظم کرکے ہزاروں ٹن ہتھیار دے کر جنگ مسلط کردی۔ نیٹو نے لیبیا میں براہ راست مداخلت کر کے جنگ چھیڑ کر معمر قذافی کی حکومت ختم کردی۔ قذافی مارے گئے لیکن متبادل قوت نہ ہونے کی وجہ سے ملک میں خانہ جنگی شروع ہوگئی اور آج بھی لیبیا مختلف علاقائی طاقتوں کے درمیان پراکسی جنگ کا میدان ہے۔ دو متحارب حکومتیں برسراقتدار ہیں اور ملک تباہ ہوچکا ہے۔

شام کی کہانی لیبیا سے زیادہ مختلف نہیں وہاں ایک واقعہ کے خلاف عوامی قوت اسد حاکمیت کے جبر کو ختم کرنے کیلئے نکلی لیکن مغربی قوموں اور اُن کے پراکسیز نے عوامی تحریک کو ہائی جیک کرکے شام میں اسد مخالف قوتوں کو سپورٹ کرنا شروع کردیا۔ شام میں خانہ جنگی شروع ہوگئی اور اسد مخالف سیرین نیشنل آرمی اور مذہبی تنظیموں کو امریکہ، مغربی ممالک اور ترکی نے کھل کر مدد دی لیکن وہ بشار الاسد کی حاکمیت ختم کرنے میں کامیاب نہ ہوسکے۔

شام نے روس، ایران اور حزب اللہ کی مدد سے ملک کے بیشتر علاقوں میں پھر سے حکومتی رٹ بحال کردی ہے۔ روس اور مغربی ممالک کی سپورٹ سے شام میں لڑی جانے والی جنگ میں چار لاکھ لوگ ہلاک ہوئے اور چھ ملین سے زیادہ لبنان اور ترکی میں پناہ گزین کی زندگی گزار رہے ہیں۔ مغربی طاقتوں نے مشرق وسطی میں ایران اور روس کے اتحادی اور اسرائیل مخالف حکومت ختم کرنے کے لیے پورے شام کو تباہ کردیا۔ اقوام متحدہ نے لیبیا اور شام میں مغربی قوتوں کے سہولت کار کا کردار ادا کیا ہے۔

شام اور لیبیا کی طرح یمن بھی علاقائی طاقتوں کے رسہ کشی کا میدان بن چکا ہے ۔ یمن میں عوامی طاقت نے علی عبداللہ صالح کی تیس سالہ اقتدار ختم کردیا لیکن ہوثی باغیوں کے دارلحکومت صنعا پر قبضہ کے بعد متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب نے اپنے اتحادیوں کے ساتھ عرب دنیا کے غریب ترین ملک یمن پر یلغار کردی۔ یمن میں لیبیا کی طرح دو متحارب حکومتیں برسرپیکار ہیں ۔ ہوثیوں کو ایران اور عبدرب منصور ہادی کو سعودی عرب اور دوسرے ممالک کی مدد حاصل ہے۔

لبنان اور عراق میں ایک دہائی سے تسلسل کے ساتھ تبدیلی کے لئے ابھار اٹھ رہے ہیں۔ دونوں ملک شیعہ اور سنی تضاد کا مرکز ہیں ۔ ایران اور سعودی عرب اِن ملکوں میں اثر و رسوخ کے لئے اپنے پراکسیز کو استعمال کررہے ہیں۔ لبنان اقتصادی طور پر تباہ ہو چکا ہے۔ 2019 کے اُبھار کے بعد سماج میں تبدیلی کے آثار نمایاں ہیں اور موجودہ پارٹیوں کو لوگ رد کررہے ہیں۔ حالیہ الیکشن میں کچھ ترقی پسند شخصیات لبنان کے پارلیمنٹ میں منتخب ہوئے ہیں لیکن اِن پارٹیوں کے متبادل نہ ہونے کی وجہ سے انقلابی تبدیلی کا کوئی امکان نہیں ہے اور عراق کے حالات لبنان سے مختلف نہیں ہیں۔

ایران میں 2009 کے متنازعہ صدارتی انتخابات کے نتائج کو عوام نے چیلنج کرکے سیاسی بغاوت کردی جسے سیکورٹی فورسز نے کچل دیا۔ 2019 میں ایندھن کی قیمتوں میں اضافے نے احتجاج کو جنم دیا جو جنگل کی آگ کی طرح ایران کے کئی شہروں میں پھیل گیا، جسے جبر کے ساتھ ختم کر دیا گیا۔مہسا امینی کے قتل پر بھڑک اٹھنے والی بغاوت کا آخری ہونے کا امکان نہیں ہے کیونکہ اسلامی جمہوریہ میں سماجی بے چینی ختم ہونے کے کوئی آثار نہیں ہیں۔

ایران میں حالیہ اُبھار کے ساتھ ہی مغربی بلوچستان بھی شورش کے زد میں ہے۔ چابہار میں سیستان و بلوچستان کے اعلی افیسر کرنل ابراہیم کوچکزئی کی بلوچ بچی سے زیادتی کے خلاف مغربی بلوچستان کے دارالحکومت زاہدان میں ہزاروں لوگ احتجاج کررہے ہیں۔ پولیس کی فائرنگ سے متعدد مظاہرین ہلاک اور سینکڑوں زخمی ہوچکے ہیں جس کے ردعمل میں پاسداران انقلاب کے انٹیلی جنس چیف سمیت اعلی افسران بھی مارے گئے ہیں۔ بلوچستان میں شورش کا حالیہ اُبھار سے تعلق نہیں ہے بلکہ ایرانی ظلم و جبر کے خلاف بلوچ مزاحمت دہائیوں پر محیط ہے۔

ایران اور مشرق وسطی کی قوموں میں عوامی اُبھار کے کامیاب نہ ہونے کی سب سے بڑی وجہ آمرانہ حکومتوں کے خلاف متبادل ترقی پسند پارٹیاں یاتنظیموں کا نہ ہونا ہے۔ سوائے مصر کے مشرقی وسطی کے ملکوں میں آمرانہ حکومتوں کے خلاف کوئی متبادل پارٹی موجود نہیں ہے۔ ایران میں بلوچ، کرد اور احواز پارٹیاں وجود رکھتے ہیں جو قوموں کی حقوق کے لئے برسر پیکار ہیں، کرد مسلح تنظیمیں ملا رجیم کےلئے پریشانی کا باعث ہیں اور عراق کے سرزمین پر اُنہیں میزائل حملوں کا نشانہ بنا رہا ہے لیکن ایران میں مرکزی سطح پر ایسا کوئی ترقی پسند پارٹی موجود نہیں ہے ۔ انتخابات کے نام پر اعتدال پسند اور قدامت پسند باریاں بدلتے رہتے ہیں لیکن طاقت کا محور خامنہ ای اور پاسداران انقلاب ہیں۔

جب تک آمرانہ حکومتوں کے خلاف متبادل ترقی پسند پارٹیاں موجود نہیں ہونگے جو آمریت کے خاتمے کے لئے قومی قوت کو منظم کرسکیں عوامی ابُھار انقلابی تبدیلی لانے میں کامیاب نہیں ہونگے ۔ عوام کی طاقت سے خوفزدہ ہوکر صدر یا حکومت استعفیٰ دے دیگا لیکن پھر اُن کا کوئی ہمنوا آکر حکومت سنبھال لے گا۔ ایران کے سخت گیر ملا رجیم کا متبادل موجود نہیں ہے اور رجیم کی جڑیں ایرانی سماج میں بہت مضبوط ہیں ۔ ایران کے مخالف امریکہ اور مغربی قومیں عوامی اُبھار کو بہت بڑا پیش کرکے نظام کی تبدیلی کا تجزیہ کررہے ہیں لیکن جب تک آمرانہ حکومت کے متبادل قوت کا وجود نہ ہو تب تک ملا رجیم کا خاتمہ ایک خواب ہی رہے گا ۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں