بندوق اور نوجوان(حصہ اول) ۔ بیورگ بزدار

606

(حصہ اول) بندوق اور نوجوان

تحریر: بیورگ بزدار

دی بلوچستان پوسٹ

ایک شام میں کسی درخت کی ٹھنڈے چھاوں میں بیٹھا سمندر کے کنارے لہروں کی آواز سے لطف اندوز ہورہا تھا تبھی میرے سامنے سے ایک بچہ گزرا جو بھوک سے نڈھال تھا مگر وہ جونہی میرے پاس سے گزرا تو ساتھ کھڑے شخص کا کھانا چرا کر بھاگا پھر ایک جگہ رک کر اسے کھانے لگا تبھی ساتھ کھڑے شخص نے کہا کیسا خدا ہے غریبوں کو پیدا کرکے بھول جاتا ہے، اس سوال نے مجھے اندر سے جنجھوڑا اور میں سوچنے لگا آخر یہ خدا کون ہے؟ کیوں اس نے اس دنیا میں انسان کو پیدا کیا ہے؟ کیا واقعی وہ اپنی امت سے پیار کرتا ہے؟ میں ابھی انہی سوچوں میں پڑا تھا کہ ایک شخص کو پولیس اٹھا کر لے گئی اور اس پر گولیاں چلائیں، جب ان سے کسی نہ پوچھا یہ کون تھا کیوں مارا؟ تو پولیس والے نے کہا یہ حرام زادہ دہشتگرد تھا کتی کی موت مرا۔ اس کے جواب نے مجھے اتنا بے بس کیا کہ جسم میں سانسیں باقی نہ تھی کہ ان سے اور سوال کرتا کہ دہشتگرد کون ہوتے ہیں؟ یہ کیوں دہشتگرد بنتے ہیں؟ انہیں کس نے اس راہ پر گامزن کیا ہے؟ اخر کیا واقعی وہ دہشتگرد تھا؟ ان سب سوالوں کے بچھاڑ میں ابھی مجھے پہلے سوال کا جواب نہیں ملا تھا کہ دوسرا سوال اندر سے کھانے لگا۔

مجھے اب میرے سوالوں کے جواب چاہیے تھے تاکہ مجھے تسلی مل سکے کہاس کا دنیا میں مقصد کیا تھا اور اس طرح کیوں راہوں پر، سڑکوں پر ، گولیاں برس رہی ہیں۔ میں خدا بخش چوک پر پہنچا کہ بم دھماکے کی آواز سنائی دی تو بھاگ بھاگ کر وہاں پہنچا تو پتہ چلا ستر لوگ زخمی اور تیس کے قریب فوت ہوگئے تھے تو پتہ چلا یہ کوئی خودکش بمبار تھا جس نے اتنے سارے لوگوں کی جانیں لی۔ مگر پھر ایک سوال پیدا ہوا کہ آخر یہ ہو کیا رہا ہے؟ یہ کون تھا جس نے اتنے لوگوں کو مارا؟

وہ کس سے مل کر یہ کیوں کر رہا تھا؟ اتنے میں میری آنکھ کھل گئی اور میں ٹہر ٹہر کر پانی پیا۔ اب مجھے میرے سوالوں کے جوابات سے مطلب تھا کہ کوئی ان سب کا جواب دے۔ میں گھر سے نکلا تو ماں نے پکارا بیٹا کھانا کھاتے جاؤ تو میں نے کہا واپس آکر کھاتا ہوں، ابھی بھوک نہیں ہے اتنے میں چل پڑا راستے میں کچھ عورتیں کھڑی جسم فروشی کررہی تھی۔ انہیں کے ساتھ ایک شاندار مکان تھا ۔ میں اس محلے میں پہلی بار جارہا تھا جہاں سجنا سنورنا ایک عمدہ انتخاب تھا جو کہ کسی ریب سے کم نہیں تھا۔ اتنے میں پیچھے سے کسی نہ پکارا چکنے کتنے دام دوگے میں حوس کا پجاری چل پڑا اسی کے ساتھ کیا دیکھا کہ
ایک جوان عورت پر شباب زلفیں گلاب آنکھیں
شراب دامن خوشبوؤں سے مہک رہی تھی
جس نے مجھے دیکھتے ہی کہا کتنی عمر ہے تمہاری میں بے جھجھک خوف سے لبریز زبان سے بولا 18 تو اس شیلا نے ہنس کر کہا چھوکرا جوان ہوگیا ہے۔ میں حوس کا پجاری نہ جانے کیا پوچھ بیٹھا آخر یہ سب کیوں؟ آخر یہ سب کس لیے کرتے ہو؟ میں نے سوالات کی بوچھاڑ کردی اتنے میں شیلا کی آنکھیں سرخ اور ہنسی رک گئی جیسے کسی گھر کی میت دیکھ لی ہو۔
تو شیلا نے کچھ دیر کی خاموشی کے بعد کہا صاحب !
بھوک , روٹی , بچے !
تو میں نے کہا آپ کوئی اور کام کیوں نہیں کرتے؟ تو وہ خوشی سے جھوم اٹھی کہ آج کسی نے ” تم سے آپ” بولا ہے لگتا ہے محلے میں نیا آیا ہے۔

اس جواب نے مجھے آدھا سبق دے دیا تھا کہ کچھ تو وجوہات ہیں زندگی میں جینے کے یا مرنے کے ایسے کون مارتا ہے کسی کو ، کون کسی کے لیے خودکشی کرتا ہے ، ایسے کون غلامی کے ڈر سے موت کو قبول کرلیتا ہے۔

آدھے منٹ کی خاموشی کے بعد مجھے میرا دوست چاکر یاد آگیا جس کے پاس کتابوں کی فہرست تھی جو اکثر مجھے کہا کرتا تھا ان کو پڑھ لے تیرے سارے سوالوں کے جواب مل جائیں گے، میں بھاگا دوڑا چاکر کے گھر کی جانب جب وہاں پہنچا تو اسے پتہ چلا کہ وہ لاپتہ ہے اسے پچھلے دنوں دیش کے غداری کے جرم میں پولیس نے اٹھایا تھا اور پھر جب بوڑھی ماں نے تھانے کا دروازے کھٹکٹایا تو پتہ چلا چاکر کو وہ لے آئے تھے مگر اس کے بعد ہمارے محافظ اسے لیے گئے۔ اتنے میں بوڑھی ماں بھی واپس ایک ماہ گزار دیے بنا چاکر کہ مجھے یاد ہے جب چاکر سے ملتا تو کہتا تھا ہم اور تم غلام ہیں، ہمیں مارا جاسکتا ہے تو میں ہنس کر کہتا ایسا کچھ نہیں ہوگا۔

کچھ دنوں بعد میں نے وہاں کے سردار کا دروازہ کھٹکھٹایا تو اس سے دس دن تک ملنے نہ دیا گیا جب آخر میں میں ان سے ملا تو انہوں نے سیدھے منہ جواب نہ دے کر مجھ سے کہا مجھے کوئی اور کام نہیں ہے جو یہ کام کروں۔ تو میں نے بلا خوف کہا تم سردار ہو تم کچھ نہیں کروگے تو کون کچھ کرے گا ایسے میں سردار کے گارڈ نے مجھے باہر نکالا۔ میں راستے سے منہ چھپا کر گھر پہنچا تو پتہ چلا کہ کچھ سادہ لوگ میرے گھر آئے تھے اور میری ماں سے پوچھا کہ آپ کا بیٹا کہاں ہے؟
تو ماں نے کہا مجھے نہیں معلوم!
اتنے میں ایک سادہ لباس میں ملبوس شخص نے میری ماں کو لات مارا.

یہ منظر جب محلے والوں سے پوچھا تو میں گھر سے رخصت ہوگیا اور میرے گھر سے دور کہیں پہاڑی گھاٹیوں سے بھرا ایک جنگل تھا جہاں مجھے چھپنا آسان لگا مگر یہ پہلی مرتبہ تھا۔
ایک طرف ڈر اور دوسری طرف میں بے قصور اور تیسری طرف مجھے میرے سوالوں نے میرے قدم میں تیزی پیدا کی۔ ابھی راستے میں تھا کہ بھوک پیاس سے نڈھال میں کسی چوٹی کے قریب بے ہوش ہوگیا تھا جب ہوش سنبھالا تو کیا دیکھا کچھ شخص ہاتھوں میں بندوق تھامے میرے قریب ٹہرے میرے ہوش میں آنے کا انتظار کررہے تھے۔ تو ایک بوڑھا شخص جو ان سب کا کمانڈر تھا سفید داڑھی، لمبے بال، اور قد کافی اونچی تھی۔

میرے اٹھتے ہی مجھے پانی دیا گیا جب میں نے بندوق تھامے شخص کو دیکھا تو میرے زہن میں دہشتگرد آئے تو میں ڈر کے مارے پانی نہ پی سکا اتنے میں بوڑھے نے اخبار ہاتھ میں تھامے ساتھ پڑی کتاب اٹھائی جس کا نام ” Nationalism” تھا ۔ اور ساتھ کھڑے شخص سے کہا اسے کھانا کھلاؤ یہ بھوکا ہوگا ہم نے اگے جانا ہے تو کچھ خشک روٹیاں موٹی اور کچھ علاقائی سبزی تھی پتلی سی گھاس کی طرح اور ساتھ کچھ پیاز بھی۔ مجھے کہا بچے کھانا کھاکر اپنے گھر چلے جاؤ تو میں بولا میں آپ کے ساتھ آؤنگا تو انہوں نے لاکھ منع کرنے پر مجھے اپنے ساتھ لے گئے۔ جہاں کافی زیادہ لوگ تھے جن سب کا چہرہ چھپا ہوا تھا تو میں نے ان کے بڑے کمانڈر سے پوچھا کہ کیا میں کچھ پوچھ سکتا ہوں تو اس نے جی کہہ کر سر ہلایا اور چل پڑا۔ میں نے کہا آپ کو کس نام سے پکاروں!
کمانڈر نے کہا : جیسے اپ کا دل کرے .
میں نے کہا آپ نے مجھے اپنے ساتھ کیوں رکھا ؟
تو کمانڈر نے کہا : جب بھوکا پیاسا صحرا میں ہو تو اسے مسافت سے زیادہ پیٹ کی پڑتی ہے جب تمیں دیکھا تو خالی پیٹ ،گلہ خشک تو تمھارے ہوش میں آنے کا انتظار کیا اور ملا بھی کیا جیب میں ایک پین کے علاہ کچھ بھی نہیں۔
تو ہم اسی جگہ رک گئے جہاں نزدیک غار کے علاہ کچھ نہیں تھا وہیں جا کر آرام کیا. تو میں نے اجازت مانگ کر ان سے سوال کرنا چاہا تو کمانڈر نے کہا بیٹا پہلے اپنا تعارف کروا۔
نام : اسفند یار
بارویں کا طالب علم ہوں
کمانڈر: یہاں تک کیسے پہنچے ؟
تو میں نے سارا واقعہ سنایا ۔
کمانڈر: گھر واپس جانا چاہو گے ؟
اسفند: نہیں میں سر ہلایا!
کمانڈر: ہم تمھیں رازداری کی وجہ سے اپنے ساتھ نہیں رکھ سکتے لہذا آپ کو جانا ہوگا تو اس کے بعد مجھے جانے کو اشارہ کیا اور راستہ بتایا کہ کتاب کھول کر پڑھنا شروع کیا۔
اسفند: کمانڈر مجھے میرے سوالوں کے جواب دو گے تو میں بخوشی چلا جاؤں گا۔
کمانڈر : کون سے جواب ؟
اسفند : کچھ سوال ہے میرے ؟
کمانڈر : پوچھو !
اسفند دو منٹ کی خاموشی کے بعد بولا یہ غلامی کیا ہوتی ہے ؟
کمانڈر : سادہ سے جواب کہ جب کوئی ملک کسی کے ملک وسائل پر قبضہ کرکے وہاں کے لوگوں کی حقیقی زندگی چھین کر ان پر اپنے خیالات ان پر حاوی کر کے انہیں اپنے رسم و رواج ،زبان کسی قوم پر زبردستی مسلط کرے۔ جو اسے قبول کریں اسے غلام کہتے ہیں۔
اسفند : سرمایہ دارانہ نظام ؟
کمانڈر : بیٹا جب بھی قابض قبضہ کرتا ہے سب سے پہلے وہ ملک کے تجارت پر اپنا قبضہ برقرار رکھتا ہے کسی بھی دیش کی اکانومی سب سے زیادہ اہمیت رکھتی ہے اور اسے امیر طبقہ کے درمیان زمین سستے میں بیچ کر چیزوں کو عام عوام میں مہنگے داموں دینا۔ اکثر عوام کو لگتا ہے کہ غربت قسمت ہے۔
اسفند وہ لمحے یاد کرکے خاموش ہوگیا .
اسفند : یہ قابض ایسا کیوں کرتے ہیں ؟
کمانڈر : اپنے ملک کے رقبہ کو وسیع کرنے کے لیے اور معدنی زخائر کو لوٹنے کے لیے۔
اسفند : زخائر ؟
کمانڈر : زمین کے نیچے جو بھی زخائر نکلتا ہے وہ اس قوم کا حق ہے جس کی ملکیت ہوتی ہے مگر ایسا کلونائزر ہرگز نہیں چاہتا .
اسفند یہاں دو سوال ہے میرے کہ زخائر سے کیا مراد ہے ؟
کلونائزر سے کیا مراد ہے ؟
کمانڈر : زخائر سے مراد سونا ،چاندی ،تیل ،گیس ، پیتل ،ہیرا ،یورنیم ،کوئلہ ایسے بہت سے زخائر۔
جب کوئی ملک کسی ملک پر قبضہ کرتا ہے اسے کلونائزڈ کہتے ہیں!
اسفند : تو اس غلامی سے نجات حاصل کیسے کرنی چاہیے ؟
کمانڈر : طالب علم قوموں کا سرمایہ ہوتے ہیں جب انہیں احساس ہوتا ہے غلامی کا تو وہ سیاسی یا مسلح جدوجہد کرکے اپنی دشمن کو اپنے ملک سے باہر نکال دیتے ہیں۔
اسفند : تو آپ لوگ سیاسی جدوجہد کیوں نہیں کرتے؟
کمانڈر : جب دشمن تہذیب یافتہ ہوتو ہم تہذیب سے سیاسی جد وجہد کرتے ہیں دشمن نے بندوق کی نوک پر ہم پر قبضہ کیا ہے۔ تشدد کو تشدد سے مندمل کیا جاسکتا ہے ناکہ اخلاق سے ۔
اسفند : کس بنیاد پر ایک ملک کسی ملک پر قابض ہوتا ہے کمانڈر ؟
کمانڈر : قابض کی خاصیت ہے کہ وہ خود کو تہذیب یافتہ سمجھتا ہے حالانکہ اس سے زیادہ بد تہذیب کوئی نہیں جب وہ کسی پر قابض ہوتا ہے ۔ وہ کسی قوم پر اکر پابندیاں لگاتا ہے اس کی مادری زبان کو کمتر پوزیشن دے کر اس کے رسم و رواج کو جاہلیت کہہ کر ، وہاں اپنے ادارے بنا کر عوام کی ذہنیت تبدیل کرکے ترقی کے نام پر کچھ سڑکیں تعمیر کروا کر سعوام کو لوٹ لیتا ہے۔

اتنے میں کمانڈر نے کہا کہ اگر آپ کے سوالوں کے جواب پورے ہوگئے تو آپ جاسکتے ہو۔ میرے زہن میں سوالات کے جواب کچھ باقی تھے میں نہ دوبارہ اجازت مانگ کر سوال پوچھنا چاہا مگر کمانڈر نے منع کیا۔
میں کچھ لمحے بعد وہاں سے روانہ ہوا اور اخر میں کہا ایک دن دوبارہ واپس آؤنگا اتنے میں کمانڈر انچیف نے ہنس کر کہا
اللہ کرے”

میں گھاٹیوں کے بیچوں بیچ سفر جاری رکھتے ہوئے جب شام کو گھر پہنچا تو مجھے معلوم ہوا کہ چاکر کو بازیاب کیا گیا ہے ۔ اتنی خوشی مجھ سے رہا نہ گیا میرا دوست چاکر مجھے کیوں عزیز لگتا ہے میں سوچوں میں بھاگتا ہوا جب چاکر کے گھر پہنچا تو کیا دیکھا چاکر کے جسم پر زخموں کے نشانات ہیں ۔ اور چاکر دماغی توازن اپنا کھو بیٹھا ہے اور اسے صرف ایک بات یاد تھی ۔
” میں کچھ نہیں جانتا ” بس بار بار یہی کہہ کر خاموش ہو جاتا تھا ۔ جب میں صبحِ دوبارہ چاکر سے ملنے گیا تو پتہ چلا چاکر نے خودکشی کی کوشش کی وہ اب باہر نہیں جاسکتا ۔ مجھے دیکھتے ہی چاکر کے آنکھوں میں آنسو آئے اور مجھ سے کہا میں کچھ نہیں جانتا مجھے کیوں اتنا مارا ۔ جب پوچھنے پر پتہ چلا چاکر کے جسم پر ڈرل کے نشانات ، بازوؤں پر سگریٹ کے نشانات ، اور اسے سر پر شدید کرنٹ دیا گیا جس سے وہ توازن کھو بیٹھا تھا۔

مجھے چاکر کے دکھ نے اتنا تنگ کیا کہ اخر کیوں معصوم چاکر ان کے ظلم کا شکار ہوا ۔ کیا کتاب پڑھنا گناہ ہے ، کیا شعور عذاب ہے ، کیا شعور موت ہے، بے شعوری زندگی۔ اسی سوچ میں ڈوبا ہوا تھا کہ ٹی وی پر خبر شائع ہوئی جس میں کہہ رہے تھے فلاں پہاڑوں میں کچھ باغیوں کو ہلاک کیا ہے اس خبر نے مجھے کہیں کا نہیں چھوڑا۔ کل ہی تو ان سے ملا تھا کیا میں منحوس ہوں جس سے ملتا ہوں وہ تکلیف میں پڑ جاتا ہے۔ انہی سوچوں میں بوڑھا کمانڈر یاد آگیا جلدی سے وہاں سے بھاگا دوڑا انہی پہاڑیوں کی چوٹیوں پر جہاں نیم بے ہوشی کی حالت ترس میں ملا تھا ۔ وہاں جاکر دیکھا کچھ ساتھیوں کی لاشیں ملیں گولیوں سے چھلنی جب میں نے قریب سے دیکھا تو بوڑھے کمانڈر نے خود کو گولی ماری تھی پوچھنے پر پتہ چلا یہ دشمن کی گولی سے آزادی سے خود کی گولی سے مرنا پسند کرتے ہیں تو مجھ سے نہ رہا گیا اور میں نے کہا یہ شہید ہے ، یہ امر ہے، یہ تاقیامت سلامت رہیں ۔ ساتھ کھڑے شخص نے میری باتیں سن کر مجھے شک کی نگاہ سے دیکھنے لگا کہیں میں ان کا بندہ تو نہیں لیکن جب میں گھر پہنچا کچھ لوگ میرے گھر کے قریب ٹہرے ہوئے تھے جب انہوں نے مجھے دیکھا آنکھوں پر پٹی باندھ کر کالی گاڑی میں پھینک کر وہاں سے چل پڑے۔ راستے میں کچھ لوگ مجھے دہشتگرد کہہ رہے تھے اور کچھ غدار اور کچھ تو باغی گروہ کا سربراہ مقرر کر رہے تھے۔ چند میل سفر کے بعد مجھے ایک کوٹھڑی میں آنکھیں کھول کر ڈال دیا۔ جہاں پینے کے لیے پانی کے سوا کچھ نہیں تھا۔ میرے ساتھ کچھ کمرے اور تھے جن سے آوازیں آرہی تھیں کہ خدا قسم ہم کچھ نہیں جانتے ۔ کیوں ہمیں کئی سالوں سے رکھا ہوا ہے۔ ابھیایل لمحہ گزرا کہ ایک شخص نے دروازہ کھولا اور مجھے باہر کسی ٹیبل پر بیٹھا کر کسی کے آنے کا انتظار کیا۔ اتنے میں ایسا شخص داخل ہوا قد لمبا ، کلین شیو ، وردی پر تین ستارے ، اور ہاتھ میں شراب کی بوتل، اور کچھ سگار اس کے ہاتھ میں تھے۔ مجھے دیکھ کر کہا شراب نوشی کرتے ہو تو میںنے کہا نہیں۔ سگریٹ نوشی ، نشے کا دھندہ کرتے ہو، لڑکیوں کا سمگل ، اتنے سوال میں سب کا جواب نہیں میں دیا۔
مجھ سے پوچھا تمھارا نام اسفند !
اور اسکا نام کچھ راجپوت ناصر تھا۔ اتنے پیار سے پیش آنے کے بعد میں سوچنے لگا آخر کیا ہے اس جگہ جہاں لوگ زہنی مریض بن کر نکلتے ہیں مگر مجھ سے کہا اپ کا ان لوگوں سے کیا واسطہ تھا ۔
اسفند : حضور میں انہیں نہیں جانتا .
راجپوت: تو پھر تم نے انہیں شہید کیوں کہا ؟ تمھیں کس نے کہا وہ شھید ہوئے ؟ وہ کمینے دہشتگرد تھے کتے کی موت مرے ۔ تمھارا ان سے کیا لینا دینا ہے بتاو سچ ورنہ یہاں پوری زندگی سڑ کر مروگے ۔مجھے لگا انہیں پورا معاملہ بتا دوں، تبھی شاید جان چھوٹ جائے تبھی مجھے بوڑھے کمانڈر نے اپنے ساتھی کو کہتے ہوئے سنا مرنا پسند کرنا مگر راز کو سینے میں دفن کرنا۔ بس اسی بوڑھے کمانڈر کی بات نے مجھے تیس سال کا حوصلہ دیا۔ اس کے بعد میں بس یہی کہتا رہا جس آدمی نے آپ کو جو بھی جھوٹ بولا ہے میں نے اپنے وردی والے لوگوں کو شھید کہا ہے یہ تاقیامت زندہ سلامت رہیں۔

راجپوت نے مجھے منہ پر تھپڑ رسید کر کے کہا ہمیں بےوقوف بناتے ہو بے وقوف بنانا ہمارا کام ہے۔ سچ سچ بتاو ورنا آپکی آواز یہیں دفن ہوجائے گی اور کبھی وہ محلے اور گلی اور ماں باپ کبھی نہیں دیکھ پاؤ گے۔ کچھ لمحے جذبات کو قابو میں رکھ کر کہا سر میں کچھ نہیں جانتا. اتنے میں چار موٹے آدمی بلا کر میری خوب پٹائی کی اور میرے منہ سے کچھ نہیں جانتا کہ علاہ کچھ نہیں نکلا۔ جب وہ تھک گئے تو کہا اسے تین دن کھانا نہیں دینا یہ تو کیا اس کا باپ بتائے گا ۔ اور اسے تین دن تک سونے نہیں دینا اسے خوب سزا دو جب تک یہ کچھ نہیں بتاتا۔ تبھی میرے قریب سے کسی عورت اور اس کے بچے کی آواز سنائی دی۔

مجھے لگا عورت تو مجرم ہے مگر اس بچے کا کیا جرم ۔ کیا یہ اس لیے جرم دار ہے کہ اس ماں کی بچی ہے جس نے گناہ کیا ہے یا نہیں ۔ میں نے جب عورت کی آوازیں سنی تو میری نیند اکھڑ گئی اور میں نے ساتھ کھڑے وردی والے نقاب پوش سے پوچھا اس عورت کا کیا قصور کیوں اس کے اولاد کے ساتھ تو اس نے بتایا کہ یہ استانی ہے بچوں کو آزادی کا سبق پڑھاتی ہے مگر اس کے بچے کا کیا قصور ؟ تو اس نے کہا اگر بچے کو چھوڑ دیا تو کل یہ بچہ ہمارے لیے گلے کا ہڈی بن جائے گا۔

اس زندان میں مجھے قریب تین سال ہوگئے تھے جب آتے تو مارتے تھے اور کبھی کرنٹ، کبھی سگریٹ سے جسم جلانا ، ناخن نکالنا ، ڈرل سے پاؤں میں سوراخ کرنا ، کبھی گرم لوہا جسم پر رکھ دینا ، کبھی برف پر گھنٹے زبردستی لیٹے رکھنا۔ مگر مجھ میں جواب دینے کی سکت اس لیے کم ہوگئ تھی کیوں کہ مجھ سے اب ہر ظلم برداشت ہورہا تھا ۔ پھر ایک دن ایسا آیا میرے سامنے کچھ شخص لائے گئے جو قریب بارہ سالوں سے ان کا مسلسل ظلم سہہ رہے تھے ان سے زبردستی ان کو منوایا جا رہا تھا آپ مان لو اپ کو رہا کردیا جائے گا ان میں سے اکثریت طالب علموں کی تھی جن کو صرف اس لیے سزا دی جارہی تھی وہ ایک ہی زبان ، شناخت ،اور ایک ہی ملک سے تھے بس شائد اس لیے انہیں سزا دی جارہی تھی۔

جب میجر نے اس طالب علم سے کہا تم لوگ دہشتگرد ہو تم لوگ ملک کے خلاف بھونکتے کتے ہو پڑوسی ملک کے ایجنٹ ہو اور کچھ دیر کی خاموشی کے بعد جب اس میجر نے اسے ماں کی گالی دی تو کہا مجھے ماں کی گالی مت دو صاحب بس خاموش ہوگیا ۔ اس طرح کئی طلباء کو اسی طرح زلیل وخوار کیا جارہا تھا کئی سال گزرتے نہ کسی کو قید کی خبر تھی نہ کسی اور دن کی۔ ایک دن جب میں واپس آرہا تھا تو دیکھا ایک نوجوان کچھ پڑھ رہا تھا تو میں نے جب اسے دیکھا تو اس نے چھپا دیا کہ شاید وہ جاسوس ہے۔ اسی طرح کئی دن گزرتے جارہے تھے کبھی ایسا دن اتا تھا جہاں ہم سنتے تھے کہ فلاں فلاں شخص کا انتقال ہوگیا کبھی تعداد بیس تھی کبھی اس سے زیادہ تو میجر بس ان کو یہ کہتا ان کی تصویر بناو اور میڈیا کے سامنے رکھو کہ ان غداروں کو اج محافظوں نے ہلاک کیا ہے۔ بس کبھی تو کہتے تھے ان کو ایک قبر بنا کر ایک سو دس لوگوں کی لاش ڈال دو۔ یونہی دن گزرتے رہے۔

ایک دن جب ہم شام کو اٹھے تو میجر سب کمروں میں مٹھیاں بانٹ رہا تھا تو میں نے وجہ پوچھا تو کہا فلاں پہاڑوں میں تیس جنگجووں کو ہلاک کیا گیا ہے۔ اسی خوشی میں تو میں نے بجائے اسے کھانے اس کو پھینک دیا۔

کچھ ماہ بعد ہمیں صبح چار بجے انکھوں پر کالی پٹی پہنا کر گاڑی میں سوار کر کے دور ایسی جگہ لے گئے جہاں آبادیوں کا نام و نشان نہیں تھا ۔ ہمیں اتارا میرے تین ساتھیوں کو موقع پر بندھے ہاتھوں پیچھے گولیاں برسائی گئیں اور ہم چار کو پیروں پر دو دو گولیاں چلائیں اور کہا آج کے بعد اگر آپ نظر آئے تو یہ گولیاں ماتھے یا سینے پر ہونگے۔

ہم چار ساتھی ان کے جانے کے بعد ایک دن وہیں پڑے رہے اور ایک دن دو شخص آئے اور وہ لاشوں کے ساتھ ہمیں لے گئے بس پھر آنکھ ہسپتال میں کھولی اور وہاں سے بستر پر خود کو اکیلا پایا اور اس شخص کا شکریہ ادا کیا، جس فرشتہ صفت انسان نے ہمیں ہسپتال پہنچایا۔

جاری ہے ۔۔۔۔حصہ اول


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں