چاند ہمینیت کا ۔ محمد خان داؤد

144

چاند ہمینیت کا

تحریر: محمد خان داؤد

دی بلوچستان پوسٹ

وہ اداس آنکھوں سے کتنا انتظار کرتی؟
وہ روئی چیخی،چلائی،پولیس موبائل کے پیچھے دوڑی بھی
پر سب کچھ پیچھے رہ گیا
منتظر آنکھوں کے سامنے کئی سورج طلوع ہوئے اور کئی سورج ڈوب گئے!
بھیگے نینوں کے سامنے کئی چاند نکلے اور ڈوب گئے
ایسا نہیں کہ سندھ کی نمکین مٹی پر کوئی بارش نہیں برسی،ان سالوں میں کئی بارشیں برسیں اور دور جنگلوں میں پھول بھی کھلے پر اگر کوئی پھول نہیں کھلا تو اس قبر پر جس قبر میں تانیہ گھائل ہوکر سو رہی ہے!
ایسا نہیں کہ سندھ دھرتی پر اس کے جانے کے بعد کوئی ہوائیں نہیں گھُلیں
کئی ہوائیں گھُلیں،پر وہ دوپٹہ آج بھی اسی جھاڑی سے لٹک رہا ہے جب بھاگتے کتوں کے درمیاں اس کا وہ دوپٹہ ان جھاڑیوں سے اُلجھ کر رہ گیا تھا جب ایک قاتل کونج کو گھائل کر رہا تھا
وہ ماں چاہتی تھی کہ وہ دو،دوپٹے پرچم بن کر ہواؤں میں لہرائیں اور سندھ ایک چیخ بن کر جاگ جائے اور سندھ اس ماں سے پوچھے کہ ”اس کونج کو کس نے قتل کیا؟“
پر نہ تو وہ دونوں دو پٹے پرچم بن کر لہرائے،نہ سندھ چیخ بن کر جاگا اور نہ ہی یہ سوال دہرایا گیا کہ
”اماں اس کونج کو کس نے قتل کیا؟“
جن دوپٹوں کو دھرتی کا باغیانی پرچم بننا تھا کتنے افسوس کی بات ہے کہ وہ دونوں،دوپٹے کفن بن گئے
چار سال پہلے ایک کفن میں تانیہ کا گھائل وجود سندھ دھرتی میں دفن ہوا
اور آج چار سال بعد تانیہ کی اداس ماں کے حصے میں دوسرا دوپٹے آیا جس میں وہ اپنے منھ پر پلو ڈالے سو رہی ہے
ایسا نہیں کہ سندھ کی کورٹوں میں انصاف نہیں ہوتا
پر انصاف اس ماں کے حصے میں نہیں آیا جس ماں کی کونج جیسی بیٹی بس اس لیے قتل کر دی گئی کہ وہ بہت خوبصورت تھی،وہ چاند تھی،چاندنی تھی۔میٹھا پانی تھی،جل تھل تھی،بارش تھی،پھول تھی۔قوس قزا تھی یا سب رنگ سانول تھی؟!بس گولی چلی اور اس کے محبت بھرے سینے کو گھائل کرتی عار پار ہو گئی۔
تانیہ کے سینے پر محبت کا جنم ہوا تھا
ایسا محسوس ہوتا تھا کہ دھرتی کی تمام بارشیں تانیہ کے سینے پر برستی ہیں
جس سے اس کے پستان دودھ سے بھرے بھرے محسوس ہو تے تھے
ایسا محسوس ہوتا تھا کہ تتلیاں ان پستانوں سے رس چوسنے آتی ہیں
ایسا محسوس ہوتا تھا کہ دھنک کے سب رنگ انہیں چھاتیوں پر برستے ہیں
ایسا محسوس ہوتا تھا کہ وہ چھا تی نہیں وہ کوئی شہد کا چھتا ہو
وہ سندھ کے کیچڑ میں کھلنے والا نیل کنول تھا
اس کے چہرے پر تمام صبحیں طلوع ہو تی تھیں
اور اس کا چہرہ نئے سویرے جیسا تھا
وہ بارش میں دھلا دھرتی کا وہ حصہ تھا جس حصے پر نمازی سجدے کرتے ہیں
اور قاتل نے ایسے مقدس مقام پر گولی چلا کہ سب کچھ لہو لہان کر دیا
جسم بھی،حسن بھی۔سینہ بھی۔چھا تی بھی۔دودھ سے بھرے پستان بھی اور وہ ماں بھی
جو بعد اس قتل ان پولیس موبائلوں کے پیچھے بھاگتی رہی جن پولیس موبائل میں تانیہ کی سرد لاش پڑی ہوئی تھی اور وہ پولیس موبائل اپنی رفتار سے بھاگتی رہی اور پیچھے رہ گئی بس وہ دھول جس کے چھُٹ جانے پر پیچھے کچھ نہ تھا!
جب تانیہ قتل ہوئی تو دو قبریں بنی
ایک قبر سندھ کی نمکین مٹی میں اور دوسری اس ماں کے سینے میں جو روئی پھر خاموش ہو گئی اور پھر روئی اور پھر خاموش ہوگئی۔سندھ کی دھرتی پر بنی قبر جلد خشک ہوگئی جب کہ ماں کے سینے میں بنی قبر کبھی نہ خشک ہوئی تھی اور نہ ہوگی یہاں تک کہ وہ ماں آپ قبر بن گئی!
پر اب سُلگتی قبر،آپ قبر بن گئی۔اب اس تانیہ کے لیے کوئی نہیں روئے گا جس تانیہ پر بھونکتی بندوقیں بھوکیں،ماں روئی اور دور آکاش سے طلوع ہوتا سورج سب کچھ دیکھتا رہا
اب وہ ماں کبھی نہیں پوچھے گی کہ مجھ سے انصاف کب ہوگا؟
اب وہ ماں کبھی آسما ں میں خدا کو نہیں تلاشے گی
اب وہ ماں منتظر دید لیے تانیہ کی قبر پر نہیں جائے گی
اب وہ ماں نہ روئے گی اور نہ رولائیگی
کیوں کہ اب دید کا تھکا دینے والا انتظار اختتام کو پہنچا اور وہ ماں جا چکی
جب سندھ کے کی دھرتی کی کونجیں قتل ہو جائیں تو ہوائیں مغموم کیوں نہ ہوں؟!
جب سندھ کے چاند کو قتل کر دیا جائے تو سندھ پر اندھیرہ کیوں کر نہ ہو؟
اب اداس میلی مٹی میں د و قبریں ہیں
اور کس قبر سے انصاف کرو گے؟


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں