لاپتہ بلوچستان کے بازیابی کی امید ۔ اسد بلوچ

229

لاپتہ بلوچستان کے بازیابی کی امید

تحریر: اسد بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

پاکستان میں بظاہر ایک جمہوری عمل کے تحت حکومت کی تبدیلی پی ٹی آئی سے پاکستان مسلم لیگ نواز کو منتقل ہوئی ہے، اس عمل کو تمام سیاسی جماعتیں مضبوط مقتدرہ کے خلاف ایک طویل سیاسی لڑائی کے بعد اپنی سب سے بڑی کامیابی سمجھ رہی ہیں، وہ سیاسی جماعتیں جو پی ٹی آئی کی حکومت کے خلاف ایک محاذ بناکر اقتدار کی انتقال پر متحد ہوئی تھیں اسے جمہوریت کی کامیابی سے تعبیر کررہے ہیں۔ گوکہ ایک اقلیتی حلقے کا یہ خیال نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ اس سارے عمل کے پیچھے دراصل مقتدرہ ہی کارفرما تھا اور اسی کی نگرانی میں یہ سارا عمل انجام دیا گیا جسے بظاہر مضبوط مقتدرہ کی شکست اور جمہوریت کی فتح کہا جارہا ہے۔

بہرحال جو بھی ہوا ایک جمہوری طریقہ کار کے تحت اقتدار عمران خان سے شہباز شریف کو منتقل کیا گیا اس کے پیچھے کون سی طاقت یا کون نگرانی کررہا تھا ایک الگ بحث ہے کیونکہ 1970 کے بعد پاکستان میں ہر تبدیلی کے پیچھے ایک مخصوص قوت موجود رہی ہے اس لیے موجودہ تبدیلی کے بعد اس خیال کو سرے سے باطل نہیں کہا جاسکتا کہ یہ تبدیلی بھی اصل میں کسی کی منشاء کے مطابق فیض یاب ہوئی ہے۔

اب جبکہ پاکستان مسلم لیگ نواز پاکستان کی حکمران جماعت اور پیپلز پارٹی سمیت دیگر سیاسی جماعتیں اس کے ہمرکاب ہیں یہ توقع بے محل نہیں کہ اس تبدیلی کا اثر محروم کیے گئے بلوچستان پر مثبت پڑیں گے اور بلوچستان کے لوگ اس کے اثرات عملی صورت میں دیکھ پائیں گے۔

پی ٹی آئی اور ان سے قبل پرویز مشرف کی آمریت ہی سے بلوچستان میں آگ اور خون کا ایک سلسلہ شروع کیا گیا ہے جس میں محب وطن اور غدار کے نام پر ایک واضح لکیر کھینچ دی گئی ہے جس کے خدوخال وہی لوگوں نے کھینچے ہیں جو اس لکیر کے مالک ہیں۔ 20 سالوں کے دوران بلوچستان میں فوجی آپریشن کیا گیا، لاتعداد نوجوان ہلاک اور بے حساب تاریک زندانوں میں ڈالے گئے، بلوچستان میں لاپتگان کی بازیابی کے لیے سرگرم تنظیم وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کا قیام ایک دہائی قبل لایا گیا جس کے سربراہ نصراللہ بلوچ ہیں، نصراللہ بلوچ کے ماموں علی اصغر بنگلزئی کو سال 2000 میں لاپتہ کیا گیا جس کے بعد ان کا کوئی سراغ نہ مل سکا، وائس فار بلوچ مسنگ پرسن کے روح رواں 75 سالہ ماما قدیر ہیں جو سابق بینکر ہیں ان کے جوان سال بیٹے جلیل ریکی کو جبری لاپتہ کرنے کے ڑھائی سال بعد مسخ لاش کی صورت میں واپس کیا گیا اس تنظیم کے پلیٹ فارم سے فرزانہ مجید، سمی دین اور دس سالہ علی حیدر نے ماما قدیر کے ہمراہ کوئٹہ سے کراچی اور کراچی سے پاور کوریڈور اسلام آباد تک پیدل لانگ مارچ کیا اور اپنے لاپتگان کی باحفاظت بازیابی کا لاحاصل مطالبہ کیا۔

اس سال 27 فروری سے تربت سے کوئٹہ تک سماجی کارکن کامریڈ گلزار دوست نے لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے پاکستان اور بلوچستان کی تاریخ کا دوسرا بڑا پیدل لانگ مارچ کیا لیکن یہ لانگ مارچ بھی نتیجہ خیز نہ رہا حتیٰ کہ اس لانگ مارچ کو میڈیا کوریج بھی نہ مل سکا یوں پاکستان کے سیاسی جھمیلوں میں لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے 24 دن پا پیادہ سفر کے بعد یہ لانگ مارچ بھی ماما قدیر کے مارچ کی طرح بے نام رہا۔
بلوچستان دو دہائیوں سے احساس محرومی یا عدم خودمختاری کے نام پر سراپا احتجاج ہے، ہر جگہ بلوچ نوجوانوں کو لاپتہ کرانے کی خبریں ہیں، اسلام آباد میں زیر تعلیم ایم فل فزکس کی آخری سسمٹر کے طالب علم حفیظ بلوچ کو خضدار سے لاپتہ کیا گیا اور اس کی نصیر آباد میں دھماکہ خیز مواد کے ساتھ گرفتاری ظاہر کی گئی، تصاویر میں مستقبل کے بلوچ سائنسدان کے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں لگی دو سپاہیوں کے ہمراہ سوشل میڈیا پر تصویریں یہی پیغام دیتی ہیں کہ بلوچستان کا مستقبل لاپتہ ہے۔ تربت یونیورسٹی کے طالب علم نعیم رحمت کو 18 مارچ کی صبح یونیورسٹی کی بس سے اتار کر لاپتہ کیا گیا اور وہ ابھی تک لاپتہ ہیں ان کی بازیابی کے لیے تربت یونیورسٹی میں ان کے ساتھی طالب علموں نے دو مرتبہ کلاس بائیکاٹ کی صورت میں احتجاج کیا ہے مگر کسی کے کانوں میں جوں تک نہیں رینگی، تربت ہی سے لاپتہ تین افراد کی گرفتاری 28 مارچ کو سی ٹی ڈی نے نصیر آباد میں دھماکہ خیر مواد کے ساتھ ظاہر کی ہے، یہ ایک نیا سلسلہ یا شاید نیا تجربہ بلوچ نوجوانوں کے ساتھ کیا جارہا ہے۔

پاکستان میں حکومت کی تبدیلی کے معاملات میں بلوچستان کا نوجوان یکسر لا تعلق رہا، سوشل میڈیا پر ایسی کوئی بازگشت بلوچستان میں سنائی نہیں دی جہاں دیگر اکائیوں میں اس پہ انٹرسٹ نظر آیا، اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ بلوچستان پاکستان کے تمام معاملات میں لاپتہ ہے۔ بلوچستان کے سب سے بڑے قبائلی سیاسی سردار اختر مینگل نے جب پی ٹی آئی حکومت کی تبدیلی کے بعد پاکستان مسلم لیگ نواز کے وزیراعظم میاں شہباز شریف کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہاکہ آئین پاکستان ہی ملک کو جوڑنے کی ضامن ہے تو سوشل میڈیا پہ بلوچستان کے نوجوانوں نے اس کا مذاق اڑایا، یہ حیرت کی بات نہیں اور بلوچستان کے معاملے میں نہ ہی تعجب کی بات ہے کیونکہ بلوچستان کو جان بوجھ کر لکیر کے اس پار کردیا گیا ہے جہاں پر بلوچستان کا نوجوان ہی نہیں پورا بلوچستان لاپتہ ہے۔ وزیر اعظم شہباز شریف بلوچستان کو بازیاب کرائیں تو یہ جمہوریت کی سب سے بڑی کامیابی ہوگی اور لوگ آئندہ سردار اختر مینگل کی ایسی باتوں پر شاید سنجیدہ بھی ہوں گے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں