شاری، تاریخ نو ۔ عائشہ اسلم بلوچ

1338

شاری، تاریخ نو

تحریر:عائشہ اسلم بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

بلوچستان بلوچ قوم کی پہچان اور ماں جیسی سرزمین، جس سے ہمارا ایمان جڑ چکا ہے ، یہ عشق سرزمین ہے ، جس کی کوکھ میں شاران جیسی بہادر اور بے باک بیٹی جنم لیتی ہے بعد میں عاشقِ سرزمین بن کر اپنی سر زمین کی دفاع کی خاطر آتشگیر مادہ بن کر دشمن پر ٹوٹ پڑتی ہے۔

آج بلوچ قومی جدوجہد جس مقام پر جا پہنچی ہے شاید قابض نام نہاد ریاست پاکستان کو اچھی طرح اس بات کا پتہ چل چکا ہے کہ بلوچ قوم ہرگز پیچھے جانے والی نہیں بلکہ ایک قدم کے بجائے دو قدم آگے جانے کا طرز عمل پا چکا ہے۔

آج میں فخراً کہتی ہوں جس طرح قومی جدوجہد میں بلوچ نوجوانوں نے جس شدت اور دلیرانہ انداز میں قربانیاں دی ہیں، آج اپنے بہادر بھائیوں کے شانہ بشانہ ان کی بہنیں ساتھ کھڑی دکھائی دے رہی ہیں، اس بات کا ثبوت ہماری دلیر شیرزال بلوچ بہن شاری بلوچ ہے جنہوں نے اپنے عظیم فیصلے کے بدولت مجید بریگڈ کا رُکن بن کر پہلا فدائی حملے کا شرف امتیاز پایا۔

آج شاری بلوچ نے ہماری ذہنوں میں موجود سارے سوالات دور کر دیں کہ عورت کبھی کمزور نہیں ہوتا، بلکہ کمزور انسان کی سوچ ہوتی ہے اگر ہم بہترین اور مثبت اور فیصلہ کن سوچ کے مالک ہوں اس بات میں مرد اور عورت کی تفریق خودبخود ختم ہو جاتی ہے۔

بس قومی مفادات کی دفاع وطن کے درد کو محسوس کرنا اور اس درد کو اپنے سینے میں جگہ دے کر آپ خود ایک با عمل کردار بن کر سرزمین کی دفاع کی خاطر ایک نہ ٹوٹنے والے عظیم سپاہی کی شکل میں میدان میں دیکھنے کو ملیں گے۔

کچھ ایسے فیصلے آپ کو دیکھنے کو ملیں گے، جو معمولی نہیں ہیں مجھے اس بات کا وہم گمان نہ تھا، کہ مجید برگیڈ کی لسٹ میں کسی خاتون کا نام بھی ہوگا۔

یہ 26 اپریل کی دوپہر کا وقت تھا ایک نیوز سننے کو ملی کہ کراچی میں یونیورسٹی کے اندر ایک زور دار دھماکہ ہوا ہے کچھ دیر بعد ایک اور نیوز آنکھوں کو چومتی ہوئی دید سے گزری اس دھماکے میں ٹارگٹ چینی آفیشل تھے، اس نیوز کو پڑھنے کے بعد ہزاروں سوال اور جواب ایک ہی وقت ذہن کے ارد گرد گھومنے لگ چکے تھے کہ یہ فدائی حملہ ہوگا لیکن یہ علم نہ تھا اس بار یہ شاری جیسی بہادر قوم کے بیٹی ہوگی۔ اسی سوچ میں تھا کہ اس بار ہمارے کون سے بھائی ہونگے، جو دشمن پر قہر بن کر ٹوٹ چکے ہیں۔

لیکن اگلی نیوز جب تنظیم کی طرف سے آئی تو میں بالکل ششدر رہ گئی کیونکہ فدائی کرنے والی خاتون تھی، جب ہماری آنکھوں نے شاری کی تصویر نم آنسوؤں سے چوما تو احساسات بدل چکے تھے۔ جب شاری بلوچ کی مسکراہٹوں کو دیکھا تو ایک ہمت ایک طاقت ایک حوصلہ جان میں آ گئی، ایک نئی تاریخ جنم لے چکی تھی، جو شاید ہی کسی کے گمان میں تھا؟ ایک بات نے مجھے پھر سے اندر سے جھنجوڑا جب پتہ چلا کہ شاری دو مصوم بچوں کی ماں ہے۔ اُففف، یہ کیسا جنون ہے یہ کیسی محبت ہو گی یہ کیسی عشق، کیسا درد تھا۔ یہ شاید ہم جیسے ادنیٰ سے لکھاری کی سوچ سے کوسوں دور ہے، جس نے شاری بلوچ کو ان کے بچوں کی طرف سے بھی کمزور نہیں ہونے دیا شاری نے بلوچستان کے درد کو سینے میں لیے اپنی پیاری دو معصوم بچوں کو رخصت کر کے اس دنیا سے چل کر راجی تاریخ میں ابد تک امر ہو گئے۔

شاری جیسی بہادر بیٹی رہتی دنیا تک یاد رکھی جائے گی جس نے نا صرف ایسا راستہ اختیار کیا بلکہ اس عظیم راستے کی شروعات کی جس کے پیچھے ہزاروں شاری منتظر ہونگے۔

ان معصوم بچوں کو ابھی یہ نہیں پتہ کہ ان کی ماں کہاں ہے لیکن جب وہ بڑے ہوکر سمجھدار ہونگے تو فخر محسوس کرینگے کہ وہ ایک ایسی دلیر بہادر ماں کے کوکھ سے جنم لینے والے خوش نصیب بچے ہیں، وہ سب سے اپنی ماں کی دلیری کا کردار سنائیں گے تو کتنے خوش اور فخر کرنے کو دیکھنے کو ملیں گے۔

اپنے وطن کا درد اپنی بے سہارہ ماں بہنوں کی آنسووں کی محسوسات ہوں پر آپ فیصلہ کرسکتے ہیں مجھے کیا کرنا ہے، پر یہ فیصلہ یہ نہیں دیکھ پاتا آپ مرد یا خواتین ہو اگر آپ کے سوچ کے اندر قومی غلامی کے خلاف نفرت نہ ہو تو اس میں مرد اور عورت کی بات نہیں ہوگی بلکہ بے حسی ہوگی، جب ایک ماں ہمارے روشن مستقبل کے لئے اپنے بچوں کو الوداع کرکے بارود سے بھری جیکٹ پہن کر دشمن پر ٹوٹ پڑتی ہے اگر اب کسی کو کوئی فرق نہیں پڑتا ہو تو یقین مانیں ہم زندہ لاش کے سوا کچھ نہیں۔

آخر میں اس نہج پر پہنچ چکی ہوں شاری جیسے کردار بلوچ قومی جدوجہد کی شان اور وہ باب ہیں جس سے ہماری قومی جدوجہد نے وہ اڑان بھر لی ہے جس سے اب بزدل دشمن مزید بلوچستان میں رہنے کو اپنے لئے خود کشی کے سوا کچھ نہ سمجھے۔

شاری جان مجھے معاف کرنا ! میں ایسا لکھاری نہیں آپ جیسے کردار کی کردار کو قلم بند کرنے پر پورا اُتر سکوں اتنا کہوں گا شاری آپ نے ہمیں راستہ دکھا دیا ہے، غلامی سے نفرت اور انکے خلاف مزاحمت ہی واحد راستہ ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں