داد جان کو میں کیسے بھول سکتا ہوں ۔ یونس رسول

668

داد جان کو میں کیسے بھول سکتا ہوں

تحریر: یونس رسول

دی بلوچستان پوسٹ

میں بحیثیت ایک دوست ایک ہمسایہ اور ایک فٹبالر ساتھی آج اپنے یار دادجان کے متعلق اپنے ٹوٹے الفاظ میں کچھ لکھنے کی کوشش کررہا ہوں کیونکہ مجھ سے دادجان کا وہ مسکراہٹ نہیں بھولا جارہا، میں کیسے بھول سکتا ہوں وہ ہر رات محلے کی دکانوں کے سامنے بیٹھ کر باتیں کرنا، میں کیسے بھول جاؤں وہ ایک دوسرے کے ساتھ مسکرانا، میں کیسے فراموش کرسکتا ہوں داد جان کے ساتھ روزانہ سردیوں کے موسم میں بلوچ موسیٰ جان کے گراؤنڈ کے کلب میں چائے بنا کے پینا۔

مجھے وہ دن بھی یاد ہیں جب ہم پہلی دفعہ انٹری ٹسٹ کی تیاری کےلیے شال (کویٹہ)گئے لیکن کچھ وقت بعد دادجان نے اپنی فائننینشل وجوہات کے بنا پر ہم سے یہ کہہ کر اپنی پڑھائی چھوڑ دی کے اب مجھ سے پڑھائی نہیں ہوسکتی، دراصل وہ ہم سے اپنی مجبوری کو چھپانا چاہتا تھا اسی وقت ہی اپنی تعلیم ادھوری چھوڑ کر واپس پنجگور (یعنی نوجوانوں کے قبرستان ) چلے آئے اور اپنے والد کے فائنینشل سپورٹ میں ہاتھ بٹانے کے لئے مواچ چوک خدابادان میں سبزی کی ایک دکان میں سبزی بیچنا شروع کردیا۔

اس وقت جب میں یہ چند الفاظ لکھنے کی کوشش کررہا ہوں میں اپنے ہاسٹل کے روم نمبر 2 میں موجود ہوں، کمرے میں بیٹھے بیٹھے یہ سوچ رہا ہوں اُس ماں پر کیا گزرا ہوگا جس نے دادجان جیسے خوش روح ،خوش اخلاق خوش شکل بچے کو جنم دیا، پالا پوسا بڑا کیا اور اُس باپ پہ یہ قیامت گزری ہوگی جس کو 21 اپریل کی دوپہر کو کہیں سے کسی اجنبی فون کال پر یہ بتلایا جاتا ہے کے ایک واقعے میں درندوں نے درندگی کی ساری حدیں پار کر کے آپ کے لخت جگر پر اپنی بندوق کے ساری گولیاں خالی کرکے شہید کردیا۔

لمحے بھر کیلئے مجھے وہ دن یاد آتے ہیں جب میں اپنے آبائی گاؤں پروم میں گھر میں بیٹھا تھا کہ ایک کال آئی اس وقت ٹیلیفون کا زمانہ تھا یہ بتایا گیا کے میرے بھائی عابد اور اُس کے تین دوستوں کو پنجگور سے نامعلوم افراد کے ایک گروہ نے اُٹھایا ہے جو چند دن بعد شہید کر کے گوارگو کے کسی ویرانے میں پھینک دیئے گئے۔

اُس دن ہم پر جو گزری ہمارے پیروں تلے زمین نکل گئی ایسے ہی آج دادجان (شہید) کے بھائی کے بھی حالات ہوئے ہونگے کہ جب اُسے پتاچلا ہوگا کے دادجان اب اس دنیا میں نہیں رہے۔

مجھ سے دادجان کی یہ عادت ہرگز نہیں بھولا جارہا کے پنجگور کے چاہے کسی بھی گراؤنڈ میں اگر کوئی ٹورنامنٹ میچز ہوتے تو وہ کلب سے ایک دن پہلے اپنے کٹ (وردی) ساتھ لئے گھر جاتا ہے تاکہ کل کے آنے والے میچ کیلئے اپنے دکان سے سیدھا گراؤنڈ پہنچ سکے۔ وہ جب بھی گراؤنڈ پہنچتا اپنے کم عمری میں زمہ داریوں اور دکانداری کی وجہ سے لیٹ ہوتا تو کوچ (کیپٹن) اُسے کہتا کہ دادجان تمہاری لیٹ آنے کی سزا یہ ہے کے میچ کے پہلے ہاف گراؤنڈ سے باہر بیٹھ جاؤ ۔لیکن وہ تھا کے اپنی پیاری مسکراہٹوں کے ساتھ ہرکسی کو قائل کرتا۔

وہ جب بھی گراؤنڈ میں داخل ہوتا تو کوچ کے ساتھ ساتھ پورے ٹیم کو یقین تھا کے دادجان اپنا اسکور کر کے ٹیم کو میچوں میں ضرور جتائیگا۔

جب بھی میں مواچ چوک سے گزرتا تو دادجان خندہ پیشانی سے اپنے دکان کے سامنے میرا استقبال کرتا دادجان کی میں کونسی باتیں لکھوں کونسی یادیں بیان کروں مجھے میرے آنسو اور میرے الفاظ ساتھ نہیں دیتے۔ بس (رب الکریم) سے یہ دعا کر سکتے ہیں کے دادجان کو شہادت کے درجے کے ساتھ جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں