جس دن ہم نے محبت کی آگ میں جلنا چھوڑ دیا۔۔۔! ۔ محمد خان داؤد

281

جس دن ہم نے محبت کی آگ میں جلنا چھوڑ دیا۔۔۔!

تحریر: محمد خان داؤد

دی بلوچستان پوسٹ

وہ گیارہ اگست کو اُنسٹھ سال کا ہوگیا۔ سندھ کے دانشور اسے بھول بیٹھے ہیں۔ پر اسے وہ سندھ نہیں بھولا جو پرین جیسا ہے۔ پر اسے وہ سندھ بھول بیٹھا ہے جو دانشوروں کا سندھ ہے۔ اسے وہ سندھ نہیں بھولا جو کتابیں نہیں پڑھتا۔ پر اسے وہ سندھ بھول بیٹھا ہے جو بہت کتابیں پڑھتا ہے۔ اسے وہ سندھ نہیں بھولا جو صوفیوں کا سندھ ہے۔ پر اسے وہ سندھ بھول بیٹھا ہے جو وڈیروں کا سندھ ہے۔
اسے وہ سندھ بھول بیٹھا ہے جو رات کو دیر تک جاگتا رہتا ہے اور صبح دیر تک سوتا رہتا ہے۔ پر اسے وہ سندھ نہیں بھولا جو جلدی سو جاتا ہے اور سبح صادق کو جاگ جاتا ہے! اسے وہ سندھ نہیں بھولا جو صبح سویرے جاگ کر لسی سے سوکھی روٹی کھا کر زمینوں میں ہل چلانے جاتا ہے۔ پر اسے وہ سندھ بھول بیٹھا ہے جو بہت عمدہ ناشتہ کر کے اپنی گاڑی اسٹارٹ کر کے اپنے آفس چلا جاتا ہے۔
اسے وہ سندھ نہیں بھولا جس کے تن پر کپڑے ہی نہیں۔ پر اسے وہ سندھ بھول بیٹھا ہے جس کے تن پر سفید کاٹن کا سوٹ ہے اور سر پر شیشوں والی سندھی ٹوپی!
اسے وہ سندھ نہیں بھولا جس سندھ میں بہت سے گاؤں ہیں اور ان گاؤں میں بہت سے کچے مکان ہیں اور ان کچے مکانوں میں بڑی دل والے لوگ بستے ہیں۔ پر اسے وہ سندھ بھول گیا جس سندھ میں شہر ہیں ان شہروں میں بہت سے پکے مکان ہیں اور ان پکے مکانوں میں بہت کمزور دل والے لوگ بستے ہیں۔ وہ سندھ اسے بھول بیٹھا ہے!
اسے وہ سندھ نہیں بھولا جو کشمور سے کیٹی بندر تک ہے۔ پر اسے وہ سندھ بھول بیٹھا ہے جس میں بڑے بڑے شہر ہیں اور ان شہروں میں بڑی بڑی عمارتیں!
وہ گیارہ اگست کو اُنسٹھ سال کا ہوگیا۔ سوال یہ نہیں ہے کہ کیا مردہ لوگوں کی بھی سالگرہ منائی جاتی ہیں؟ پر سوال یہ ہے کہ اسے سندھ کیوں بھول بیٹھا ہے؟
وہ جو سندھ کو کبھی نہیں بھولتا تھا۔ اس کی خوشیاں اس کے غم اس کا آرام اس کے تمام سفر اور اس کی تمام منزلیں ہی سندھ تھا!
تو پھر اسے سندھ کیوں بھول گیا!
جب کے اس کی تمام زندگی انگریزی کے اس مقولے جیسی تھی کہ
the we day stop burning in the fire of love people will die of the cold!,,
،،جس دن ہم نے پیار کی آگ میں جلنا چھوڑ دیا، لوگ ٹھنڈ سے مر جائیں گے!،،
وہ ایسا انسان تھا جس کے لیے کرشن کھٹوانی نے لکھا تھا کہ
،،انسان صرف اپنی دھرتی کی پیدائش نہیں۔انسان کلچر اور تاریخ کی بھی پیدائش ہے
ہم سب تاریخ کی لہروں میں تار تار ہونے والے ہیں
تو پھر انسان اور انسان میں فرق؟
ایک لہروں سے لڑتے ہیں تاریخ کو موڑنے کی کوشش کرتے ہیں
دوسرے لہروں میں بہہ جاتے ہیں
یا ایسے کہنا چاہیے کہ ایک جیتے ہیں
دوسرے جیتے ہی نہیں،
وہ جینے والوں میں تھا
وہ سندھ میں جیتا رہا۔ دردیلا دل لیے۔ وہ سندھ میں جیتا رہا بہت سے الزام لیے۔ وہ سندھ میں جیتا رہا سر پر کفن باندھے۔ وہ وفا کے لیے جیتا رہا۔ سندھ نے اس کے ساتھ وفا بھی کیا۔ پر وہ لوگ جو گھروں سے اٹھ کر اوطاقوں میں جاتے ہیں اور اوطاقوں سے اٹھ کر ان جرگوں میں جاتے ہیں جہاں انسان سوز ظلم ہوتے ہیں ان لوگوں نے اس کے ساتھ وفا نہیں کی!
وہ ایسے جیتا رہا جیسا حافظ کا یہ شعر ہے کہ
،،وفا کرتے ہیں
وفا کے جرم میں ملامتیں سہتے ہیں
اور خوش رہتے ہیں
کیوں کہ ہمارے دین میں وفا کے سبب ملی سزا پر رنج ہونے کو کفر سمجھتے ہیں!،،
اس کا تعارف بس یہی تھا کہ
وہ بیابان میں چیخ بنا
وہ جان گیا تھا کہ زندگی مثلِ بیابان ہے!
اس نے تاریخ کی باگ روک کر دکھائی!
اس نے عقابوں سے الجھ کر دکھایا!
کیوں کہ وہ چاہتا تھا کہ چھیر پر چھیر چھمکے!
کیوں کہ وہ گدلے سینور پر کھلا نیل کنول تھا!
وہ آزادی کے سروں کی مستی پر آزادی کا رقص دیکھنے کا خواں تھا
جب ہی تو وہ اپنے وجود پر می رقصم تھا!
محبوب کے مقدر میں لمبی عمر نہیں ہوتی
محبوب جلدی مر جاتے ہیں
پیچھے عاشق روتے رہتے ہیں۔ وہ بھی جلدی چلا گیا اور وہ سندھ جو اس کا عاشق تھا اب بھی اس کے پیچھے رو رہا ہے!
اور وہ آپ بھی لمبی عمر جینا ہی نہیں چاہتا تھا
کیوں کہ اس کی بھی لالٹین! موم بتی! اور چاند سے رشتے داری تھی!
اور وہ بھی شاعری کے بس ایک لمحے جیسا تھا!
اور یقیناً اس کو بھی آخری لائن سے پہلے اُڑ جانا تھا اور وہ اُڑ گیا
پر پھر بھی سوال اپنی جگہ موجود ہے کہ سندھ اس کو کیوں بھول گیا؟
وہ اس بیابان میں سائے دار درخت بنا اور طاقت ور ہاتھوں سے وہ درخت ہی کاٹ دیا!
پر جب تک رہا تو سندھ نے اسے (وڈو) سائیں کا لقب سے نوازہ
وہ سندھ کا سائیں تھا! وڈو تھا! صاحب تھا!
سوال یہ بھی ہے کہ وہ کس کس کا صاحب تھا سائیں تھا وڈو تھا؟
وہ پوری سندھ کا سائیں تھا
وہ دیش بھگتوں کا سائیں تھا
وہ دیش اور دیشوں سے ویسا گھاتی کرنے والوں کا سائیں تھا
وہ ان کا بھی سائیں تھا جن لوگوں نے اپنی جماعتوں سے جئے سندھ کے الفاظ ہی نکال دیئے تھے
اور اسٹبلشمنٹ کے کہنے پر ترقی کی شاہراہ پر چلتے رہے
وہ ان کا بھی سائیں تھا جو آزادی کا پیغام ہی بہت پیچھے چھوڑ آئے بہت میں دی ہوئی چمیاں بھی بھول بیٹھے اور وہاں چلے گئے جہاں گناہوں کے راستے شروع ہوتے ہیں
وہ ان کا بھی سائیں تھا جو اپنے معمولی معمولی کیس ختم کرانے کے واسطے وہاں نظر آتے تھے جہاں صاحب اقتدار برجمان ہوتے ہیں
وہ ان کا بھی سائیں تھا جو بہت منافق ہوتے ہیں اور سید کی راہ چھوڑ کر پیٹھ میں خنجر گھوپتے ہیں
وہ ان کا بھی سائیں تھا جو مفت کی مہ پیتے تھے اور جیتے تھے
وہ ان کا بھی سائیں تھا جن لوگوں نے بہت ہی بے شرمی سے سید کا لال کلھاڑی والا پرچم رلیوں میں سلوا دیا!
وہ ان کا بھی سائیں تھا جو لوگ بہت زور لگاتے تھے کہ سندھ کا قومی ترانے کی گونج ختم ہو جائے
وہ ان کا بھی سائیں تھا جو ایوان میں جانے پر اپنی ماں کا بھی سودا بہت سستا کرتے ہیں
وہ ان کا بھی سائیں تھا جو کردار کے بہت کچے ہوتے ہیں اور غیروں کے ساتھ سچے ہوتے ہیں
وہ ان کا بھی سائیں تھا جو یہ چاہتے تھے کہ گولی سے آزادی حاصل کی جائے اور پھر بہانا بنا کر بلوں میں چھپ گئے
پر سندھ اسے بھول بیٹھا ہے
جب کہ اس کا وجود سندھ کے لیے ایسا تھا کہ
the day we stop burning in the fire of love,people will die of the cold!,,
،،جس دن ہم نے پیار کی آگ میں جلنا چھوڑ دیا،لوگ ٹھنڈ سے مر جائیں گے!،،


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں