یہ نفرت ایک حقیقت ہے ۔ زیردان بلوچ

437

یہ نفرت ایک حقیقت ہے

زیردان بلوچ 

دی بلوچستان پوسٹ

بلوچ قوم غلامی سے نفرت اور آزادی پر یقین رکھتی ہے یہ ایک فطری حقیقت ہے کیونکہ انسان آزاد پیدا ہوتا ہے ، آزادی سے جینا اُس کا بنیادی حق ہے ، اگر بلوچ قوم کی بات کی جائے وہ اٹھارویں صدی سے قابضین کے خلاف لڑتے چلے آ رہے ہیں اسی لئے اپنی قومی شناخت کو برقرار رکھ سکے، انہیں معلوم تھا قومیں غلامی قبول کرنے سے مٹ جاتی ہیں۔

اور یہی نفرت ایک حقیقت ہے کہ بلوچ قوم نے قابض طاقتوروں کے خلاف جنگ لڑ کر اپنی قومی شناخت کو برقرار رکھا جس کی مثال آج کی رواں آزادی کی جدوجہد ہے بلوچ قوم بہادری کے ساتھ قابض پنجابی ریاست کے خلاف میدان میں شدت کے ساتھ جنگ لڑتی چلی آ رہی ہے بلوچ قوم نے کبھی بھی غلامی کے سامنے سر نہیں جھکایا کیونکہ انہیں یہ احساس تھا غلامی قوموں کی تباہی کے موجب ہوتے ہیں۔

اگر ہم رواں بلوچ تحریک کو دیکھیں تو بلوچ نوجوان سیاسی میدان میں آتے ہی اپنے باکردار اور باصلاحیت لیڈروں سے سیکھنے کے دوران یتیم کر دئیے جاتے ہیں اور وہی ورکرز اپنی زمہ داریوں سے زیادہ بوجھ اپنے کندھوں پر رکھ کر میدان میں سیاست کرنے کے ساتھ ساتھ  اپنے جبری گُمشدگی کے شکار لیڈروں کی آواز بنتے دکھائی دیتے ہیں اور اگر کوئی انہیں پوچھے آپ کا لیڈر کون ہے ؟ وہ تو لرزاں لب اور نم آنکھوں سے یہی کہتے ملیں گے “زندان” میں۔

بلوچ اسٹوڈنٹ آرگنائزیشن آزاد کے وہ کردار اور با صلاحیت لیڈران ایک دہائی سے زائد عرصے سے غیر فطری ریاست نے اپنے آہنی سلاخوں کے نظر کر دئیے ہیں، تنظیم کے وائس چئیرمین ذاکر مجید ہو یا چئیرمین زاہد بلوچ یہ بلوچ جدوجہد میں دو ایسے نمایاں کردار ہیں کبھی بھی فراموش نہیں کئے جاسکتے ہیں اگر وہ پابند سلاسل ہیں پھر بھی ہمیں حوصلہ دیتے ہیں کیونکہ نظریہ قید ہوتا ہے نا مارا جاتا ہے۔

یہ جنگ بقا کی جنگ ہے رواں بلوچ تحریک میں واجہ غلام محمد جیسے عظیم ہستی گزرے ہیں بالاچ جیسے عظیم و بے باک شخصیت کے خون شامل ہیں ڈاکٹرمنان بلوچ جیسا زیرک و صاحب تدبر لیڈر نے اس جدوجہد کو بلندیوں تک سر کرایا ہے ، ہزاروں ورکرز اپنی قومی بقا اور قومی یکجہتی کے لئے قربان ہو گئے ہیں یا زاہد بلوچ کی طرح اذیت گاہوں میں قومی بقا کی جنگ اپنے حوصلوں سے لڑ رہے ہیں۔

اس جدوجہد میں تیزفہم و باکردار ورکرز کبھی بھی انتکاف کی راہ پر گامزن نہیں ہوتا ، آج بلوچ قومی جدوجہد نے اپنے عظیم فرندوں کی خون سے سفر کر کے  یہاں تک آ پہنچا ہے اسی کاروان کی آبیاری عظیم  لیڈروں نے اپنے پاک لہو سے کی ہے اب ایک بات یقینی ہو چکی ہے اس کاروان کو کوئی اپنی بدنگاؤں یا غلط سوچ کو پروان چڑھانا اس کے لئے مشکل نہیں بلکہ ناممکن ہوگئی ہے۔

بلوچستان میں طویل عرصے سے بلوچ سیاسی ورکروں کی جبری گمشدگیاں اور شہید کرنے کے عمل میں قابض فوج نے تیزی لائی ہیں تاکہ بلوچ قومی جدوجہد کو زیر کرسکوں لیکن آزادی کی جنگ کو شروع کرنے سے پہلے بلوچ قوم اور با شعور نوجوانوں کو علم تھا آزادی کی قیمت ہمیں زندان اور خون سے ادا کرنا پڑتا ہے۔

اس بات سے ظاہر ہوتا ہے دشمن بلوچ طالب عملوں سے کتنی خوفزدہ ہے تاکہ بلوچ طلبہ آرگنائزیشن کی پُر امن جدوجہد ریاستی ظلم و بربریت کو دنیا کے سامنے عیاں نہ کرے ، لیکن بلوچستان میں نوجوان طبقے نے پھر بھی بہادری اور جہرات مندی کے ساتھ اپنے سرگرمیوں میں کمی نہیں لائے اور بلوچ قوم کی نمائندگی کرنے میں اہم کردار ادا کرتے رہے۔

چئیرمین زاہد بلوچ کو اس لئے قید بند کا سامنا کرایا ہے تاکہ بلوچ طلبہ سیاست اپنا دم توڑ سکے لیکن دشمن کو یہ معلوم نہیں جزبہِ آزادی سے سرشار نوجوان سروں کی قربانی دینے سے نہیں ڈرتے ہیں کیونکہ انہیں علم ہے یہ دشمن کی گھناؤنا چہرہ ہے تاکہ بلوچ قوم آزادی جیسے نعمت سے دور رہیں اور قابض ریاست بلوچ قوم کی نسل کُشی کے ساتھ بلوچ سرزمین کو آسانی سے لوٹ سکے، لیکن بلوچ قوم اپنی سرزمین کی دفاع اور دشمن کے خلاف نفرت ایک حقیقت ہے یہی نفرت نے دشمن کو بلوچ سرزمین پر ذہنی مریض بنا کر بے آرامی کا سامنا کرایا ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں