جنگی حکمت، دشمن کی کامیاب چالیں ۔ جیئند بلوچ

888

جنگی حکمت، دشمن کی کامیاب چالیں

تحریر: جیئند بلوچ

جیئند بلوچ

بلوچ قومی مزاحمت بیس سالہ سفر کے بعد بہت ساری خامیوں، کمزوریوں اور ریفارم کے بعد ایک ایسے اسٹیج پر پہنچ چکی ہے جہاں کسی ایک منظم قومی نجات کی تحریک کو ہونا چاہیے۔ گذشتہ بیس سالوں کی کمزوریوں اور خامیوں کو نظر انداز کیے بنا آگے کی سفر اور زیادہ تکلیف دہ، پرصعوبت اور مشکلات لیے آئے گا۔ اس وقت جبکہ مزاحمتی تحریک یا مسلح جدوجہد نے ایک بار پھر عوام کا اعتماد حاصل کیا ہے اور اپنی مقبولیت عوام کے اندر بڑھا دی ہے یہ ضروری ہے کہ سابقہ خامیوں کے ساتھ ساتھ دشمن کے نئے حربوں اور جدید ٹیکنالوجی کے سہارے تحریک یا ان سے وا بستہ سرمچاروں کی حرکات و سکنات کے کا بغور مشاہدہ کیا جائے اور انہی کے مطابق اپنی پوزیشن درست کی جائے اگر تحریک کی ہائی کمان نے اول دور کی طرح عوامی پزیرائی دیکھ کر خوش فہمی اختیار کی تو یاد رکھا جائے آئندہ کے نقصانات اس سے ہزار گنا زیادہ ہوں گے جو اپنی خامیوں اور کمزوریوں کے سبب اٹھانے پڑے ہیں۔

تحریک نے جتنی جدت اور جنگی مہارت میں نت نئے تجربات حاصل کیے ہیں دشمن بھی اتنا بیوقوف اور نالائق نہیں ہے کہ وہ اپنے رویوں اور طریقہ واردات میں تبدیلی نہ لاسکے، یقیناً وہ بطور ریاست اپنی ٹیکنالوجی کے ساتھ چائنا اور دیگر ممالک کی جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے مقابلہ کرے گی صرف اور محض بلوچ تحریک منظم یا ایک بہتر پوزیشن پر نہیں آئی ہے دشمن نے بھی اسی کے مطابق چالیں چلی ہیں، دشمن کی چالوں اور طریقہ واردات سے تحریک کو کس قدر محفوظ بنایا جاسکتا ہے، سرمچاروں کی زندگیوں کو کتنی حد تک سیکیور کیا جاسکتا ہے اس پر کام بے حد ضروری ہے، دشمن کے ایک یا دس سپاہی کے مرنے سے جنگ نہیں بدلتی مگر ایک سرمچار اپنی خامیوں کے سبب شہادت سے بہت کچھ بدل سکتا ہے حتیٰ کہ عوامی رائے بھی اس پر متاثر ہوسکتی ہے، گذشتہ ڈیڑھ مہینوں سے بی این اے کے خلاف دشمن نے جس طرح جنگی ٹیکنالوجی کا استعمال کرکے اسے سخت جانی نقصان سے دوچار کیا ہے پورے بیس سالہ جنگ میں کسی بھی تنظیم پر ایسی آفت نہیں آئی ہے، یہ نہ صرف بی این اے کے دوستوں کے لیے سوچنے، سمجھنے اور دانشمندی کے ساتھ آگے بڑھنے کا مقام ہے بلکہ دوسرے تمام تنظیموں کے لیے بھی ایک سبق ہے کیونکہ دشمن اگر اپنی جنگی چالوں میں اس قدر ہوشیار یا چالاق بن چکا ہے کہ ایک مہینے کے اندر بی این اے کے تیس سرمچاروں کو شہید کرنے کی اہلیت پاچکی ہے یقیناً ایسا عمل وہ دوسری تنظیموں کے ساتھ بھی کرسکتی ہے۔ بیس سالہ طویل مزاحمت کے بعد بی ایل اے اور بی ایل ایف نے اپنی کارروائیوں کے ذریعے دشمن کو اس سال کے شروع ہوتے ہی جس قدر بوکھلاہٹ کا شکار کردیا تھا ایک مہینے کے اندر تیس سرمچاروں کی جنگ کے بنا شہادت نے دشمن کو نیا حوصلہ دیا تو دوسری طرف عوام کو بھی مایوس کیا گیا ہے، عوام بی ایل اے اور بی ایل ایف کی نئی جنگی حکمت عملی اور جنگ میں لائی جدت اور تکنیک سے زیادہ متاثر تھی۔

اگر کوئی سمجھتا ہے کہ جنگ عوام کی پزیرائی سے نہیں لڑی جاسکتی تو یہ بات زیادہ صحیح نہیں ہے کیونکہ یہ جنگ دراصل اسی سرزمین اور یہاں بسنے والے لوگوں کی بقاء اور نجات کی جنگ ہے، لامحالہ اس کا عوامی سطح پر اثر پڑے گا اس لیے کوشش ہونی چاہیے کہ جہاں جنگی حکمت عملی پر زیادہ زور ہو، نئی ٹیکنالوجی جو دسترس میں ہوں اس کا استعمال کیا جائے اسی طرح اپنی حفاظت پر بھی توجہ لازمی ہے۔ دشمن کی طرف سے یقینی طور پر تحریک سے وابستہ سرمچاروں کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھا کر جنگ کو کریش کرنے کی کوشش ایک لازمی امر ہے اور وہ اس پر اپنی پوری کوشش ایمانداری کے ساتھ کرے گی، اس کا بس چلے وہ ہر ممکن طریقوں کو آزماکر سرمچاروں کو ٹریس اور انہیں شہید یا گرفتار کرنے کی حتیٰ الوسع کوشش کرے گی اگر دشمن کو اپنی کمزوریوں سے فائدہ اٹھانے کا موقع دیں گے تو وہ اس کا بھرپور استعمال کرے گا اور اس کی یقینی صورت ایک مہینے کی جنگ میں بلا نقصان تیس سرمچاروں کی شہادت کی صورت ہمارے سامنے ہیں۔

کیا وجوہات تھے، کیا اسباب تھے، کون سا طریقہ تھا، کیا کیا کمزوریاں اور کونسی سی خامیاں تھیں کہ دشمن صرف ایک مہینے میں اتنا حاوی ہوگیا اور اپنی گرتی ساکھ بحال کی، اس پر ایک نہیں تمام تنظیموں کو سوچنا چاہیے اپنی کمزوریوں پر گرفت اور کنٹرول کرکے حکمت کے ساتھ دشمن سے بچنا اور ان کا مقابلہ کرنا چاہیے۔ اس وقت دشمن کے پاس قومی مزاحمت کو کریش کرنے کے کون کون سے نئے ہتھیار ہیں آگے چل کر اس پر بات کریں گے مگر مختصراً یہ کہ موبائل کا غیر ضروری استعمال، لڑکیوں کی حاصل کردہ خدمات اور سوشل میڈیا میں فیک آئی ڈیز یہ بنیادی اجزاء ہیں جس کا دشمن کی طرف سے کامیاب استعمال کیا جارہا ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں