بنیادی حقوق کیلئے آواز اٹھانے کی پاداش میں ڈاکٹر جمیل و دیگر کو لاپتہ کیا گیا – این ڈی پی

316

بلوچستان کے مرکزی شہر کوئٹہ میں پیر کے روز نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی کے آرگنائزر شاہ زیب بلوچ نے اپنے دیگر مرکزی رہنماؤں کے ہمراہ پریس کلب میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان پوری دنیا میں ثقافتی، تہذیبی، لسانی، جغرافیائی اور معاشرتی حوالے سے اپنی ایک خاص شناخت رکھتی ہے۔ یہ سر زمین دنیا کے ایک ایسے خطے پر موجود ہے جو اپنے اندر بے پناہ وسائل کے ساتھ ساتھ مسائل سموئے ہوئی ہے، قدرتی وسائل سے بھر پور اس سر زمین پر دنیا کی نظر بد کچھ زیادہ ہی جمی ہوئی ہے، اور یہ سر زمین ہمیشہ سے غاصبوں اور حاکموں کیلئے باعث کشش رہی ہے، اسی لیے باہر کے لوگوں کیلئے اس سرزمین میں رہنے والوں باسیوں سے زیادہ اس کی جغرافیائی اہمیت اور ان کے وسائل زیادہ اہمیت رکھتے آرہے ہیں، ہمیشہ سے ہی اس سر زمین کے لوگ اپنی ثقافت، اپنی شناخت اور جغرافیہ کے حوالے سے تحفظات رکھتے آ رہے ہیں، کیونکہ ان کے باسیوں کے خیال میں زندگی کے ہر شعبے میں نہ صرف یہ کہ انہیں یکسر نظر انداز کیا گیا ہے بلکہ ان کے آدرشوں اور امنگوں کو حرف غلط کی طرح مٹانے کی کوشش کی گئی ہے، یہاں کے وسائل، معدنی دولت،ساحل سمندر پر انھیں دسترس نہیں، لیکن اس کے باوجود بلوچستان کے سپوت ان خدشات کے اظہار کیلئے شعور سے لیس ہو کر حق و صداقت کی علم بلند کرتے آ رہے ہیں، جسے طاقتور حلقے گناہ کبیرہ سمجھ کر ان سپوتوں کو سزا کے طور پر مختلف قسم کے سزائیں دیتے آ رہے ہیں، جس میں سر فہرست بلوچ نوجوانوں خاص سیاسی کارکناں کی جبری گمشدگی ہے۔

انہوں نے کہا کہ آج بھی ہم جبری گمشدگی کے مسئلے کو لے کر آپ صحافی حضرات کے ہاں حاضر ہو ئے ہیں اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اس وقت صحافت کو بھی جمہوریت کی طرح کنٹرول کرکے کنٹرول صحافت متعارف کرایا جا رہا ہے، اور حقیقی صحافیوں کی گلہ گھونٹا جا رہا ہے، اگر ہم یہ کہہ دیں کہ اس وقت صحافت اور صحافی کی حالت ہم سے بھی زیادہ بد تر ہے تو بے جا نہ ہو گا، حالیہ دنوں ”پاکستان میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی“ جیسے بل ہوں یا ”پیکا“جیسے آرڈننس ہوں یہ تمام حربے اظہار آزادی کے گلہ گھونٹ رہے ہیں جن کو ہماری پارٹی ہر فورم پر مسترد کرتی ہے،اور اظہار آزادی کے علم بردار ہوکر صحافیو ں کے ساتھ کھڑی ہے۔

انکا کہنا تھا کہ جیسا کہ آپ میڈیا نمائندگان کو ہماری پارٹی ترجمان کی طرف سے پریس ریلیز کے ذریعے شاید علم ہوا ہے کہ ہمارے مرکزی آرگنائزنگ کمیٹی کے ممبر ڈاکٹر جمیل بلوچ کو گزشتہ دنوں بارکھان سے نا معلوم مسلح افراد نے جبری طور پر لاپتہ کیے ہیں جنکا ابھی تک کوئی پتہ نہیں لگایا جا سکا ہے۔ یہ واقعہ 23 فروری کے دن دو پہر دو بجے اس وقت پیش آیا جب معمول کے مطابق ڈاکٹر جمیل بلوچ ولد جمعہ کیتھران اپنے میڈیکل اسٹور میں بیٹھے ہوئے تھے کہ مسلح افراد جو کئی گاڑیوں پر مشتمل تھے پہنچے اور زور زبردستی ڈاکٹر جمیل کو اغوا کر کے لے گئے۔

انہوں نے کہا کہ کچھ مہینے قبل بارکھان میں بوگس لوکل ڈومیسائل کا مسئلہ اٹھایا گیا تھا اور بوگس لوکل کے خلاف علاقہ مکینوں کی جانب سے شدید احتجاج کیا گیا جوکہ کئی دنوں تک مختلف مراحل طہ کرکے بالاخر کامیاب رہا، اور اس احتجاج کے بعد ضلعی انتظامیہ نے مجبور ہو کر سینکڑوں نان لوکل افراد کے لوکل ڈومیسائل کو بوگس قرار دے کر منسوخ کر دیا جن میں کئی افراد صوبائی و وفاقی اداروں میں اعلیٰ عہدوں پر فائز تھے۔

شاہ زیب نے کہا کہ چونکہ ڈاکٹر جمیل کا تعلق ہماری پارٹی کے مرکزی ممبران میں ہوتا ہے اس لئے انکی جبری گمشدگی کے مختلف پہلوؤں کو بحیثیت پارٹی جانچنے کی کوشش کی تو ہم اسی نتیجے پر پہنچے کہ ڈاکٹر جمیل کو بوگس لوکل و ڈومیسائل کے احتجاج اور اسکے سیاسی ایکٹوٹیز کے پاداش میں ملکی اداروں نے ہی جبری طور پر گمشدہ کیا ہے۔

چونکہ اس واقع کے دو دن بعد مزید 2 اور نوجوان بھی جبری گمشدگی کا شکار ہوئے جنکی شناخت سماجی تنظیم بارکھان نوجوان اتحاد کے سربراہ شاہ زین بلوچ اور نسیم بلوچ کے نام سے ہوئی۔ ان تمام افراد میں یہی چیز مشترک ہے کہ یہ بارکھان میں سیاسی و سماجی کاموں میں مصروف ہیں اور یہ تمام افراد بوگس لوکل ڈومیسائل احتجاج میں کلیدی کردار ادا کر رہے تھے۔

انہوں نے مزید کہا کہ نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی اس بات پر زور دیتی ہے اظہار آزادی رائے سمیت تمام بنیادی حقوق اس خطے میں بلوچ کو حاصل ہونی چاہیے جو اس خطے میں رہنے میں والے باقی اقوام کو حاصل ہے، اپنے حقوق کیلئے، ظلم اور انصافی کے خلاف آواز اٹھانا ہر ایک کا بنیادی حق ہے اور کسی کو بھی یہ اجازت نہیں دی جا سکتی ہے کہ وہ لوگوں کو آواز اٹھانے اور جدوجہد کرنے سے روکے، لہذا ہم آپ صحافیوں کے توسط سے ارباب اختیار کو بتانے چاہتے ہیں کہ وہ غیر انسانی، غیر قانونی اور غیر آئینی عمل کرنے سے باز رہے اور جبری طور پر گمشدہ ڈاکٹر جمیل بلوچ سمیت تمام لاپتہ افراد کو بازیاب کرے۔