ڈیورنڈ لائن اور گولڈ سمڈ لائن کو دل سے تسلیم نہیں کرتے۔ اسلم رئیسانی

631

سابق وزیراعلیٰ بلوچستان و چیف آف سراوان نواب محمد اسلم رئیسانی نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر اپنے پیغام میں کہا ہے کہ پاکستان کشمیر پنجاب کے تقسیم پر فرنگی راج سے نفرت اور مذمت شاہراہوں شہروں کے نام تبدیل، اس کے برعکس بلوچ و پشتون وطن کی تقسیم کی ظلم، یہ منافقت اور دہرے معیار کی نشاندہی کرتی ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ باشعور پشتون اور بلوچ ڈیورنڈ لائن اور گولڈ سمڈ لائن کو کبھی دل سے تسلیم نہیں کریں گے۔

سابق وزیر اعلی کا بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب افغانستان میں طالبان حکومت میں آتے ہی پاکستان افغان باڈر جسے افغان ڈیورنڈ لائن کہتے ہیں پہ باڑ لگانے سے پاکستان حکام کو روک رہے ہیں جبکہ کئی مقامات پہ طالبان فورسز نے باڑ اکھاڑ کرکے اپنے ساتھ لے گئے ہیں۔

ڈیورنڈ لائن کی کہانی

1893ء میں برطانوی اہلکار مارٹی مر ڈیورنڈ نے افغانستان کو تقسیم کرنے کے لئے کھینچا تھا اس لائن یا بارڈر کو ابھی تک افغان حکومت غیر قانونی قرار دیتا ہے اور بین الاقوامی باڈر تسلیم نہیں کرتا۔

گولڈ سمڈ لائن کی کہانی

بلوچ لکھاری جیئند ساجدی کے مطابق چاغی سے منسلک بارڈر جہاں باڈر کے دونوں اطراف بلوچ رہتے ہیں یہ ڈیورنڈ لائن نہیں بلکہ مک مائن لائن(McMahon line) کہلاتا ہے جسے کچھ تاریخ دان بلوچ افغان باؤنڈری بھی کہتے ہیں۔یہ لائن ڈیورنڈ لائن کے تین سال بعد 1896ء میں برطانیہ کے ایک اور سرکاری ملازم کیپٹن ہنری مک مائن نے کھنیچا تھا جس طرح ڈیورنڈ لائن نے پشتون برادری کو دو بین الاقوامی ریاستوں پاکستان اور افغانستان میں تقسیم کیا ہے، اسی طرح مک مائن لائن نے بلوچوں کو بھی دو بین الاقوامی ریاستوں افغانستان اور پاکستان میں تقسیم کیا ہے۔

ساجدی کے مطابق مک مائن لائن سے 26سال پہلے انگریزوں نے گولڈ سمڈ لائن (1871)میں بنا کر بلوچستان کے کچھ حصے ایران میں ڈال دیئے تھے اس وقت ریاست قلات سے مشاورت کی گئی تھی اور گورنر مکران سردار فقیر محمد بزنجو ریاست قلات کے نمائندے تھے اور ایران کی نمائندگی مرزا ابراہیم نے کی تھی۔

ساجدی کہتے ہیں کہ گولڈ سمڈ جو مک مائن کی طرح برطانیہ کے سرکار کے ملازم تھے انہوں نے گولڈ سمڈ لائن بنا کر بلوچوں کو دو بین الاقوامی سرحدوں میں تقسیم کردیا بعض بلوچ دانشور جیسے کے گل خان نصیر،عنایت اللہ بلوچ،جان محمد دشتی وغیرہ یہ لکھتے ہیں کہ دونوں لائنز گولڈ سمڈ (1871ء) اور مک مائن لائن (1896ء)برطانوی حکام نے ایران اور افغانستان کے بادشاہوں کو خوش کرنے کے لئے بنائے تھے۔