“شال کی یادیں” پر ایک نظر ۔ آجو بلوچ

792

شال کی یادیں” پر ایک نظر

تحریر: آجو بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

شال کی یادیں کتاب پڑھنے کا کافی عرصے سے تمنا تھا، دل بہت چاہتا تھا کہ زرک کی وہ یادیں آخر کس طرح ہونگی جس میں انھوں نے بیتے دنوں کو یاد کیا ہے۔ ایک دو دفعہ کسی دوست کو فون پر بتایا بھی تھا کہ میرے لئے کوئٹہ سے یہ کتاب بھیج دیں مگر میری یہ تمنا پوری نہیں ہوئی آخر کار ایک دن میں وٹس ایپ استعمال کر رہا تھا اور وٹس ایپ کے میسجز پڑھ رہا تھا، میسجز پڑھتے ہوئے ایک کتاب پر میری نظر پڑی جسے گروپ کے ایڈمن نے گروپ میں شئیر کیا تھا میری خوشی کی انتہا نہ رہی کیوں کہ میرے وٹس ایپ کے وال پہ زرک میر کی کتاب موجود تھی۔ میں کافی دنوں سے تجسس میں تھا کہ کب مجھے یہ کتاب ملے گا اور میں اس کو پڑھو نگا اور آج میری دلی خواہش پوری ہو رہی تھی۔

خیر جب کتاب کو ڈاونلوڈ کیا اور اس کو پڑھنا شروع کیا شروع میں مجھے لگا کہ کسی نہ اس کتاب کا پیش لفظ بھی نہیں لکھا ہے اور یہ کوئی غیر معمولی کتاب ہوگی جس کے پیش لفظ لکھنے کی بھی کسی نے زحمت نہیں کی مگر میں اس وقت غلط ثابت ہوا جب میں نے زرک میر کی بقلم خود نوشت پیش لفظ پڑھا، جس نے مجھے کتاب پڑھنے پر مجبور کردیا یہ کتاب قسط وار لکھی گئی تھی جب پہلا قسط میں نے پڑھنا شروع کیا تو میرے پسندیدہ شخص کا ذکر اس میں بارہا مجھے ملا اور میں مزید شوق سے یہ کتاب پڑھنے میں جت گیا اور پہلے ہی بیٹھک میں میں نے اس کتاب کی نو اقساط پڑھ ڈالیں جس میں زرک میر نے نہایت روانی اور خوبصورتی سے اس وقت کے معاملات کو اپنے اندز میں پیش کیا تھا
زرک نے اس وقت کی سیاست اور سیاسی معاملات پہ کافی سنجیدگی سے بات کی ہے نواب خیر مری کی جلاوطنی سے لیکر انکی واپسی تک بڑے خوبصورت انداز میں قلم آزمائی کی ہے۔

زرک لکھتا ہے کہ جب نواب صاحب کی فلائٹ آنے والی تھی تو پورا بلوچستان ائیرپورٹ پہ جمع تھا جب جہاز کی کوئٹہ کی بجائے اسلام آباد میں لینڈ کرگیا تو لوگ بجائے واپس جانے کے وہی ڈیرے جمالیے اور صبح کا انتظار کرنے لگے جب اگلے دن سورج طلوع ہوا تو مزید لوگ جمع ہوگئے اور سب ایک ساتھ نعرہ لگاتے رہے کہ نواب مری آئینگے انقلاب لائینگے۔

جب اگلے دن نواب صاحب تشریف لاتے ہیں تو بہت سے لوگ انکی استقبال کے لئے اپنے اپنے گاڑیوں میں انکے کے ہمراہ انکی رہائش گاہ کی طرف چلتے ہیں اسی اثناء میں بہت سے لوگ نعرہ بازی کے ساتھ ساتھ ہوائی فائرنگ بھی کرتے جاتے ہیں جب یہ قافلہ نوروز اسٹیڈیم سے ہوتا ہوا بلوچستان چوک پر پہنچتا ہے اور پھر وہاں سے ارباب کرم خان روڈ نواب صاحب کی رہائش گاہ کے قریب رکتا ہے اور نواب صاحب سن روف سے نکل کر سفید رنگ کی مائک ہاتھ میں لے کر لوگوں سے بات کرتے ہوئے کہتا ہے کہ آپ لوگ ایک ہارے ہوئے جرنیل کا استقبال کرنے کے لئے آئے جس کی مجھے بہت زیادہ خوشی ہے مجھے یہ توقع بھی نہیں تھی کہ آپ لوگ ایک ہارے ہوئے جرنیل کا اس انداز میں استقبال کریں گے۔

آپ کی محبت اور خلوص کو دیکھ کر مجھے کافی اچھا لگا
اپنی اس کتاب میں زرک میر بلوچ پشتون تضاد کا بھی ذکر کرتا ہے جہاں ڈگری کالج ،سائنس کالج اور یونیورسٹی آف بلوچستان میں روز کا معمول تھا چھوٹی چھوٹی باتوں پر بلوچ اور پشتون ایسے الجھ جاتے تھے جیسے وہ ایک ازل سے ایک دوسرے کے دشمن رہے اس کتاب کو پڑھ کر آپ کو ایسا لگے گا کہ آپ کوئی یاداشت نہیں پڑھ رہے ہو بلکہ بلوچستان کی تاریخ پڑھ رہے ہیں۔

آگے پھر نواب مری کا ذکر ملتا ہے کہ وطن واپسی پر اس کے معمولات کیا رہے وہ لکھتے ہیں کہ نواب صاحب نے سیاست سے بالکل غافل رہے اور چپ سادھ لی اور حق توار کے نام سے ایک اسٹڈی سرکل قائم کی جس میں متواتر بلوچ نوجوان شرکت کرتے رہے جس میں میر عبدالنبی بنگلزئی، علی شیر کرد اور دوسرے نظریاتی ساتھی شامل ہوتے رہے اور روزانہ موجودہ حالات اور معاملات پر گفتگو کرتے رہتے
حمید بلوچ کا ذکر بھی اس کتاب میں ملتا ہے کہ کس طرح اس نے عمان فوج میں بھرتی کرنے والے آفیسر پہ قاتلانہ عملہ کیا جس کی پاداش میں اسے سزا موت کی سزا سنائی دی گئی اور وہ کس طرح بلوچ قوم میں ایک ہیرو کہ طرح ہمیشہ ہمیشہ کے لئے امر ہوگئے۔

شہید نواب اکبر خان بگٹی کے زندگی کی نشیب فراز حالات کو بھی ںیان کرتا ہے کہ کس طرح ایک وقت میں وہ اپنے سیاسی غلطیوں کے بدولت ایک نعرے کے طور پر یاد کئے جاتے تھے اور وہ نعرہ تھا آمریت کہ تین نشان بھٹو بگٹی ٹکا خان اور بعد میں کس طرح سے وہ ڈاڈئے بلوچستان کا خطاب پاکر ایک ہیرو کے طور پر مادر وطن کے لئے اپنی جان نبچاور کرگئے۔

اسکے علاوہ وہ 1998 میں ہونے والے دو ایٹمی دھماکوں کو بھی نہیں بھولتا اس کے حوالے سے وہ لکھتا ہے چاغی کے سینہ کو چھلنی کرنے والے پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف گاڑی سرادار اختر مینگل نے خود ڈرایو کی تھی اور وہ بعد میں کس طرح ان سب سے خود کو بری الذمہ قرار دیتے رہے صحافیوں کے سوال کرنے پر جب اختر مینگل سے پوچھا جاتا ہے کہ اس نے بلوچستان میں کیوں دھماکہ ہونے دیا کیونکہ آپ وزیر اعلی تھے، آپ کی اجازت کہ بغیر یہاں کچھ نہیں ہوسکتا تو اختر صاحب جواب میں کہتے ہیں کہ ہمیں اس معاملے کی بالکل خبر نہیں تھی اور نہ ہی وفاق نے اس معاملے میں ہمارا اعتماد حاصل کیا ہے یہ سب ہمارے علم میں لائے بغیر کیا گیا ہے۔

جب دھماکہ ہونے کہ بعد اختر مینگل چاغی کا دورہ کرتے ہیں تو دوبارہ صحافی حضرات اسے گھیرے میں لیتے ہیں اور سوال کرتے ہیں کہ اختر مینگل صاحب کیا آپ کو نہیں لگتا اس دھماکہ کے برے اثرات مرتب ہو سکتے ہیں تو وہ بڑی خندہ پیشانی سے جواب دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ میں بھی تو یہاں موجود ہوں اور مجھ کچھ نہیں ہورہا۔

آگے وہ مشرف کی وہ کہی ہوئی بات اور واقعہ کا ذکر بھی کرتا ہے جسے بلوچستان میں میں لوگ اب تک نہیں بھلا پائے۔

مشرف پر جب ڈیرہ بگٹی میں راکٹ فائر کئے جاتے ہیں تو وہ نواب اکبر خان کو چیلنج دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہم آپ کو وہاں سے ہٹ کرینگے کہ آپ کو پتہ بھی نہیں چلے گا اور آخر کار ایسا ہی کیا مشرف نے نواب صاحب پر ایک کیمیکل ہتھیار سے حملہ کیا جہاں نواب صاحب کے ساتھ دوسرے ساتھی بھی شہید ہوگئے اور یوں مشرف زندہ ہوکر بھی بے نام رہا اور نواب صاحب شہید ہوکر آج بھی ہم سب کے دلوں میں زندہ ہیں۔

اور بھی بہت کچھ اس کتاب میں پڑھنے کو آپ کو ملیں گی اس کتاب میں ایسی ایسی باتوں کا پتہ چلتا ہے جس سے ہماری نئی نسل غافل ہےتحقیق کرنے والے طالب علموں کے لئے بھی اس کتاب میں کافی مواد موجود ہے اگر وہ بلوچستان کی پچھلی حکومتوں کی سیاسی حالات اور مزاحمتی تحریکوں کے بارے میں جاننے کی خواہشمند ہو تو اس کتاب کو اسے ایک بار ضرور پڑھ لینی چاہیئے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں