گوادر دھرنا ۔ اعظم الفت بلوچ

301

گوادر دھرنا

تحریر: اعظم الفت بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

بلوچستان کے ساحلی شہر گوادر میں “بلوچستان کو حق دو تحریک” کا دھرنا بیسویں روز بھی جاری رہا، دھرنے میں کراچی سے بلوچ خواتین اور پنجگور سے سینکڑوں کی تعداد میں لوگوں نے شرکت کرتے ہوئے اظہار یکجہتی کی ہے۔دھرنے سے خطاب کرتے مقررین نے کہا کہ اپنے مطالبات کی منظوری اور ان پر عمل درآمد کرانے تک جدوجہد جاری رکھیں گے۔انہوں نے کہا کہ اگر یہاں پر بیٹھے کسی شخص کو کچھ نقصان ہوا تو اس کا ذمہ دار موجودہ حکومت اور اسے لانے والے بی این پی مینگل اور جمعیت علمائے اسلام پر عائد ہوگی۔

دھرنے کے روح رواں مولانا ہدایت الرحمان بلوچ نے کہا کہ صوبائی وزراءجھوٹ پہ جھوٹ بول رہے ہیں میڈیا کے سامنے کہتے ہیں کہ مطالبات تسلیم ہوئے ہیں لیکن ابتک کسی ایک تسلیم شدہ مطالبہ پر عملدرآمد نہیں ہوا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ دھرنے کے خلاف کسی کارروائی کے خدشے کے پیش نظر گذشتہ شب مولانا ہدایت الرحمان نے دھرنے کے شرکا سے کہا تھا کہ اگر کوئی جانا چاہتا ہے تو انہیں ان کی طرف سے اجازت ہے لیکن وہ خود مطالبات پر عملدرآمد تک دھرنا ختم نہں کریں گے خواہ اس کے لیے انہیں اکیلا ہی کیوں بیٹھنا نہ پڑے۔

مقررین کاکہنا تھا کہ یہاں پرائمری اسکولوں سے زیادہ چیک پوسٹ قائم ہیں۔مقامی ذرائع کے مطابق بلوچستان پولیس کی بھاری نفری دھرنے کے مقام پر پہنچ گئی۔ مظاہرین نے دعویٰ کیا کہ پولیس نے مظاہرین کو گھیرے میں لے لیا ہے۔گوادر شہر سے تعلق رکھنے والے افراد کا کہنا ہے کہ کسی احتجاج کے تناظر میں پولیس اہلکاروں کی یہ سب سے بڑی تعیناتی ہے۔محکمہ پولیس کے ایک نوٹیفیکیشن کے مطابق گوادر میں باہر سے مجموعی طور پر 5500 پولیس اہلکاروں کی تعیناتی کے احکامات جاری کیے گئے ہیں،ریگولر پولیس کے اہلکار جعفرآباد ، مستونگ ،زیارت، پنجگور، خضدار، تربت، نصیرآباد ،قلات ،کچھی ، خاران ،سبی اور لسبیلہ سے بھیجے گئے ہیں۔گوادر شہر اور ضلع گوادر کے دیگر علاقوں میں ان کی تعیناتی کا عمل شروع ہوگیا ہے۔

بلوچستان کو حق دوتحریک حقوق کے حصول کی مہم نے زور پکڑ لیا ہے، گوادر سے کوئٹہ تک پورے بلوچستان میں بڑے اثرات مرتب کر رہے ہیں۔ مذاکرات کے چار دور ہونے کے باوجود حکام اس معاملے کو پرامن طریقے سے نمٹانے میں ناکام ہوئے ، یہ ایک حقیقت ہے کہ مولانا ہدایت الرحمان کی ثابت قدمی اورمخلصی بلوچستان کے مظلوم عوام کی آواز بن چکی ہے اور گوادر سے شروع ہونے والی ان کی تحریک اب دور دور تک پھیلی ہوئی ہے، گوادر کے عام لوگوں بلکہ مکران کے باسیوں کی تحریکی کاوشیں قابل ذکرہیں۔

اگرچہ حکومت نے حق دو تحریک کے چار مطالبات کے حوالے سے نوٹیفکیشن جاری کر دیا ہے تاہم دھرنے کے شرکا ان پر عملدرآمد سے مطمئن نہیں ہیں۔ دریں اثناءوزیر اعلیٰ بلوچستان میر عبدالقدوس بزنجو کی زیر صدارت مکران ڈویژن کے ہیڈ کوارٹر تربت میں اعلیٰ سطحی اجلاس میں ٹوکن سسٹم کے خاتمے سمیت سرحدی تجارت کے حوالے سے اہم فیصلے کیے گئے تاہم دھرنے پر موجود لوگوں کو متوجہ کرنے میں ناکام رہے۔ تعلیم، صحت، پانی اور بجلی کی فراہمی کا مطالبہ کرنے والی مہم اب حکام کو چیلنج کرتے ہوئے ایک حقیقی اور حقیقی سیاسی تحریک میں تبدیل ہو چکی ہے۔ طرح طرح کے نعرے لگائے گئے ،لیکن نااہل صوبائی حکومت عوامی مطالبات کے حل میں ناکام نظر آتی ہے۔

سوال یہ ہے کہ مولانا ہدایت خواتین کی بڑی تعداد کو ریلی میں لانے میں کیوں کامیاب ہوئے؟ کس چیز نے خواتین کو تحریک کی حمایت پر مجبور کیا؟ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ 15 نومبر کو دھرنا شروع ہونے کے بعد سے گوادر میں خواتین کی ریلی اپنی نوعیت کی تیسری ریلی تھی، اس سے قبل عام لوگوں اور بچوں کی بڑی ریلیاں نکالی گئی تھیں لیکن خواتین کی ریلی سب سے منفرد تھی کیونکہ وہاں کوئی بھی نہیں تھا۔

بلوچستان کے قبائلی معاشرے میں خواتین کی اتنی بڑی تعداد میں گھر سے نکلنا تاریخ ہے اور یہاں کی جو قوم پرست دراصل پارلیمنٹ پرست جماعتوں کے لئے ڈوب مرنے کا مقام ہے، اس حقوق کے حصول کی اس مہم میں نہ تو کوئی نواب ہے نہ سردار زادے اور نہ ہی نام ونہاد مڈل کلاس کامستانہ نعرہ بلند کرنے والی نیشنل پارٹی ۔ بقول شہید نواب بگٹی (بلوچستان کے قوم پرست پارلیمانی جماعتیں دراصل پیٹ پرست ہی ہوتے ہیں )۔ اگر تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو ہمیشہ نام ونہاد قوم پرست اور سردارونواب زادے ہر تحریک کےلئے خطرہ بنے رہے ،گوادر میں اتنی بڑی تعداد میں خواتین اس سے پہلے کبھی بھی احتجاجی ریلیوں میں نہیں نکلی تھیں اور نہ ہی بلوچستان کے کسی دوسرے حصے میں اس کی نظیر ملتی ہے ۔

گوادر کے پاس معاش کے دو بڑے ذرائع ہیں جن میں ماہی گیری اور ایران کے ساتھ سرحد پار تجارت شامل ہے…


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں