مذہبی جنونیت ۔ سنگت آجو

529

مذہبی جنونیت

تحریر: سنگت آجو

دی بلوچستان پوسٹ

مذہبی جنونیت میں اضافہ عوام الناس کے لئے وبال جان بن گئی ہے، جن فیکٹریوں میں ان کی پرورش کی جاتی رہی اب وہاں لاوہ پھوٹنے کو ہے۔ کسی دانا نے کیا خوب کہا تھا کہ جب آپ جنونی آلہ کار تیار کر رہے ہیں، بعد میں یہ آپ کے خود کے گلے میں پھنس جائیں گے اور آج وہی سب کچھ ہو رہا ہے، جن کا خدشہ ظاہر کیا جارہا تھا۔

آج معاشرہ کس جانب جارہا ہے یہ کہنا قبل ازوقت ہے لیکن لوگ وحشی بنتے جارہے ہیں ان کی ڈوریں اب کسی کے کنٹرول میں بھی نہیں، بس کوئی بھڑکانے والا ہو پھر تماشہ دیکھیں کہ لوگوں کا رویہ کیا ہوتا ہے، کس طرح سے انفرادیت ہجوم کی شکل اختیار کرتا ہے اور آپ سب کو پتہ ہے جب مذہبی جنونیت ہو اور افراد ہجوم کی شکل اختیار کرجائیں تو کیا ہوتا ہے؟

اس کی زندہ مثال سیالکوٹ میں پیش آنے والے واقعے سے ہوتا ہے کہ کس طرح ایک غیر ملکی کو گھسیٹا گیا، ان کو پیٹا گیا اور جب ہجوم کا غصہ ٹھنڈا نہیں ہوا تو انکی لاش کو راکھ کا ڈھیر بنا دیا گیا۔

یہ کیا ہو رہا ہے اور کیوں ہو رہاہے؟ اس کو روکنے والے کیوں خاموش تماشائی بن گئے ہیں؟ کیا اب کسی جانچ پڑتال کے بغیر کسی کو بھی ہجوم کے حوالے کردیا جائے گا؟ کوئی عدالت نہیں کوئی قانون نہیں سب فیصلہ لوگ کریں گے کہ گناہگار کے لئے کیا سزا تجویز کرنی ہے اسے کس طرح اذیت دینا ہے، سب فیصلہ ہجوم نے کرنا ہے؟ اب سب لبیک کا نعرہ لگا کر کسی کو کسی بھی وقت موت کے حوالے کریں گے؟

اس سے پہلے بھی اس طرح کے واقعات رونما ہوچکے ہیں اور انکے اثرات مرتب ہوئے ہیں، اس سے کوئی باخبر نہیں یہاں تو لوگ اپنا کام کرکے اپنے اپنے گھر چلے جاتے ہیں اور اس واقعے کو بھول جاتے ہیں مگر دوسرے ممالک میں رہنے والے مسلمانوں پر کیا گزرتی ہے کسی نے اس بارے میں سوچا ہے؟ انکی زندگی کس طرح اجیرن ہوتا ہے کبھی کسی نے جاننے کی کوشش کی ہے؟

اگر یہاں مذہبی جنونیت کے حامل افراد پائے جاتے ہیں تو کیا غیر ممالک میں ایسے افراد نہیں پائے جاتے؟ کیا وہ اس واقعے کو فراموش کردیں گے اور مسلمانوں کو دل سے لگا کر انکی آو بھگت کریں گے؟ کیا وہاں کے مسلمان آسانی سے نقل و حرکت کرسکیں گے؟ انکی جان کو کیا خطرات لاحق ہو سکتے ہیں انکے بارے میں کسی نے سوچا ہے؟

آپ نے تو بس اپنا کام کردیا اپنا غصہ ٹھنڈا کردیا عاشق رسول ہونے کا سرٹیفیکیٹ بھی حاصل کرلیا جنت جانے کا سب سے کارآمد راستہ چن لیا مگر یہ سوچنا تک گوارہ نہیں کیا کہ ہمارے اس طرح کے اقدام سے دنیا کو کیا پیغام جائے گا اور وہاں رہنے والے مسلمان کس طرح آپ کے کئے انجام کا شکار ہوجائیں گے اور کس طرح اپنی روزمرہ زندگی میں مشکلات سے دوچار ہوجائیں گے؟

مجھے یہ سمجھ نہیں آتا ہمارے حکمران اس طرح کے واقعات رونما کرنے والے افراد کو کیوں ایسے چھوڑ دیتے ہیں اور ان کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کرتے؟ انہیں کیوں چھوٹ دی جاتی ہے حوصلہ شکنی کرنے کی بجائے انکی واہ واہ کیوں کی جاتی ہے؟ ماضی میں بھی جب باغیوں نے خانہ کعبہ پر یلغار کیا تھا تو یہا ں کہ مسلمانوں نے کتے والے محاورے کی مصداق بات کی تصدیق کرنے کی بجائے ہجوم کی شکل اختیار کی اور ملک میں موجود غیر ملکی افراد کے املاک پر ہلا بول دیا اور انکی ملک میں موجود سفارتخانے کو آگ لگا دیا اور جب بعد میں پتہ چلا کہ سعودی حکومت پر حملہ غیر مسلموں نے نہیں بلکہ وہاں کے مقامی باغیوں نے کیا تھا اب پچھتاوے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا سوائے افسوس کے۔

دن بدن انسانیت کی تذلیل ہو رہی ہے اور کوئی بھی زندہ ضمیر افراد نہیں بچا جو اس طرح کی واقعے کی مذمت کرے، ہمارے حکمران تک اس واقعے پہ خاموشی اختیار کئے بیٹھے ہیں اور انکا کوئی بھی مذمتی بیان تک سامنا نہیں آیا کیونکہ انھیں پتہ ہے اگر وہ ان جیسے افراد کہ بارے مین کچھ کہیں گے تو کل کہ دن انکاحال بھی سابقہ وزیر جیسا ہوگا جس کو دن دہاڑے انکے باڈی گارڈ نے گولی مار کر قتل کردیااور قومی ہیرو قرار پایا۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں