عوام کی سیاسی تربیت لازمی امر ہے ۔ منیر بلوچ

333

عوام کی سیاسی تربیت لازمی امر ہے

تحریر: منیر بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

فرانز فینن اپنی کتاب افتادگان خاک کے صفحہ نمبر 163 مپر رقمطراز ہے کہ عوام کی سیاسی تعلیم کا مطلب نہ تو سیاسی تقریر ہوتی ہے اور نہ ہی ہوسکتی ہے. اس کا دراصل مطلب یہ ہے کہ بے جگری اور جوش کے ساتھ عوام کو یہ سکھایا جائے کہ ہر بات کا انحصار انہیں پر ہے، اگر ہم جامد ہیں تو ان کے باعث اور اگر ہم آگے بڑھ رہے ہیں تو انہیں کے سبب. تقدیر کا کوئی وجود نہیں اور ایسا کوئی بڑا آدمی نہیں جو ہر چیز کا بار اپنے سر لے لے. تقدیر لوگ خود ہیں اور اگر کوئی طلسمی ہاتھ ہے تو وہ عوام کا اپنا ہاتھ ہے.

ماہر نفسیات فرانز فینن کے کتاب کے پیراگراف کو ہم بلوچ قومی تحریک کے تناظر میں دیکھنے کی کوشش کریں تو کئی سوالات جنم لیتے ہیں جن پر بلوچ قومی رہنماؤں کو غورو فکر کی ضرورت ہے. اگر ان سوالات پر غور وفکر نہ کیا گیا تو مستقبل قریب میں اسکے اثرات بلوچ قومی تحریک پر منفی پڑسکتے ہیں.

سنہ دو ہزار سے جاری تحریک میں بلوچ آزادی پسند پارٹیوں نے بلوچ عوام کی سیاسی تربیت کی ہے یا صرف نعروں کا سہارا لیکر قوم کو سحر زدہ اور جذبات میں مبتلا کردیا ہے؟ کیا آج بلوچ قومی تحریک جامد ہو کر رہ گیا ہے؟ اگر بلوچ قومی تحریک جامد ہے تو اسکی وجوہات اندرونی ہے یا ریاستی طاقت اسکی وجہ ہے؟ کیا بلوچ قومی تحریک آزادی کی جدوجہد کے دوران عوام کو یہ باور کرایا گیا ہے کہ اصل طاقت عوام کی ہے؟ اگر واقعی عوام کو طاقت کا سر چشمہ قرار دیا گیا ہے تو بلوچ قومی تحریک سے بیگانگی کی وجوہات کہاں پیوست ہیں؟

ان سوالوں پر قومی رہنماوں کو سوچ بچار کی ضرورت ہے. کیونکہ بلوچ قومی تحریک آج اس موڑ پر کھڑی ہے جہاں واپسی کا کوئی راستہ. راستہ صرف اورصرف جدوجہد کا ہے اس کے علاوہ کوئی راستہ نہیں. عوام مایوسی کا شکار ہے. گوادر دھرنے میں جماعت اسلامی کے بلوچستان کے سیکرٹری جنرل کی اپیل پر لاکھوں لوگ دھرنے میں شریک ہوئے، دراصل یہ دھرنا قومی غلامی کے خلاف نفرت کی مثال تھی اور اس بات کا ثبوت تھا کہ موجودہ بلوچ سماج میں رہنمانہ کردار کی ضرورت کو شدت سے محسوس کیا گیا.

موجودہ حالات کی روشنی میں بلوچ آزادی پسندوں کو اتحاد و یکجہتی کے ذریعے قومی تحریک کو آگے بڑھانے کی ضرورت پر زور دینے کے علاوہ عوام کی سیاسی تعیلم و تربیت پر توجہ دینے کی ضرورت پر زور دینا چاہیئے کیونکہ عوام کی سیاسی تربیت کے بغیر آزادی کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکتا.


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں