ریاست ہی نہیں پوری پاکستانی معاشرہ بلوچ نسل کشی کو جائز سمجھتی ہیں – ماما قدیر بلوچ

336

کراچی پریس کلب کے سامنے قائم وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے بھوک ہڑتالی کیمپ کو 4528 دن مکمل ہوگئے۔ بلوچ وائس ایسوسی ایشن فرانس کے پریذیڈنٹ منیر احمد مینگل نے فون پر لاپتہ افراد کے لواحقین سے اظہار یکجہتی کی۔

اس موقع پہ انہوں نے کہا کہ یہ سلسلہ اب اپنی انتہا کو چھو رہی ہے گذشتہ 72سالوں سے مختلف وقتوں کے دوران اور گزشتہ 20 سالوں سے مسلسل ریاستی دہشت گردی جاری ہے اور آہنی سفاکیت و درندگی کی ایسی اندوہناک مثالیں قائم کر رہے ہیں جو دور غلامی میں ڈھائے جانے والے مظالم کی یاد تازہ کرتی ہے جس کا گھناؤنا مظاہرہ بدنام زمانہ پالیسی ” اٹھاو مارو اور پھینکو پر بے دریغ عملدرآمد میں بڑا نمایاں نظر آتا ہے۔

ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ ریاست ہی نہیں پوری پاکستانی معاشرہ بلوچ قوم کے نسل کشی کو جائز سمجھتے ہیں کیونکہ انکے نزدیک اپنے بنیادی حق و قومی تشخص کی بحالی کے خواہاں بلوچ پیروکار غدار ہیں جس کا اظہار سوشل میڈیا میں بھی سامنے آیا ہے بعض افراد نے مسخ شدہ لاشوں پر مسرت و خوشی کا اظہار کرتے ہوئے مقتولین کو بی ایل اے، بی ایل ایف کے سرمچار قرار دیکر کہا ہے کہ ان کے ساتھ یہی سلوک ہونا چاہئے تھا، یہ ہی رحجان پاکستانی سوسائٹی کا مائنڈ سیٹ ہے جو کہ غالب ہے لہٰذا ایسی کیفیت میں بلوچوں کے زخموں پر مرہم رکھنا بعید از قیاس اور دیوانے کا خواب قرار دیا جا سکتا ہے۔

ماما قدیر بلوچ نے مزید کہا کہ لاپتہ افراد کے معاملے پر عدالتوں میں مقدمات کے اندراج کے علاوہ انصاف کے دعوے دار تمام ریاستی اداروں اور حکومتی ایوانوں سے رجوع کیا گیا لیکن ابتک اس کا نتیجہ صفر نکلا ہے کیونکہ نہ بلوچ کو ماورائے اغواء گرفتاریاں اور تشدد زدہ مسخ لاشوں کے پھینکنے کا سلسلہ نہ تھم سکا ہے اور نہ ہی ان اندوہناک واقعات پر ذمےدار ریاستی کارندوں اور ان کے زرخرید حواریوں کے خلاف کوئی کاروائی عمل میں لائی گئی ہے اور سارا زور محض لفاظی وبیان بازی پر دیا جارہا ہے موجودہ حکومت اپنی تمام تر لفاظی کے باوجود بلوچ کش ریاستی کاروائیوں کو قانونی تحفظ فراہم کررہی ہے جس کے لیے انسداد دہشت گردی کے نام سے نت نئے قوانین متعارف کروا رہی ہے۔