بلوچ قوم اپنے لیڈر کی منتظر ۔ سمیرا بلوچ

384

بلوچ قوم اپنے لیڈر کی منتظر

تحریر: سمیرا بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

کہتے ہیں کہ جو ریاست انسانی زندگی میں تعلیم اور معاشی تقاضوں اور ضرورتوں کی زمہ دار نہیں ہوتی وہاں غربت اور امارات وراثت بن جایا کرتی ہے۔

میں کوئی بہت زیادہ تجربہ رکھنے والی نہیں ہوں، درجہ بالا لائنز کو ایک کتاب میں، میں نے پڑھا تھا، تو میرے سامنے میرے ہی وطن بلوچستان کی تصویر ابھری، غربت ، بے روزگاری ، ناخواندگی جیسے میرے وطن کی تقدیر میں زبردستی لکھ دیا گیا ہے، جی ہاں آپ نے صحیح پڑھا، “زبردستی”. عرش والے نے ایک ایسی سر زمین عطا کی ہے، کہ اس میں نہ معدنیات کی کمی، نہ سمندر ، نہ موسم اور نہ ہی وطن پر جان نثار کرنے والوں کی کوئی کمی۔ لیکن فرش والوں نے جو زبردستی کی بد نصیبی ہماری نصیب میں لکھا ہے، اسکی وجہ سے ہمیں وارثت میں غربت ملی اور ہمارے سر زمین کی دولت حکمرانوں کے لیے امارات بنانے کی وجہ بن گئی ہیں، لیکن لگتا ہے، کہ اب اسکے زوال کا وقت شروع ہونے والا ہے۔

سنا تو ہو گا کہ وقت ہمیشہ اک سے نہیں رہتا ہے، تغیر و تبدل فطری عمل ہے۔ گودار میں جو لوگوں کا طوفان امڈ نکلا ہے، وہ کوئی ایک یا دو دن ،ایک یا دو سال کی محرومیوں کا ردعمل نہیں ہے۔ بلکہ اب جو یہ آتش فشاں کی صورت میں پھٹا پڑا ہے، اسکا لاوہ تو کب سے اندر ہی اندر پک رہا تھا۔ پاکستان کے اگر 75 سالہ تاریخ پر ہم نظر ڈالیں تو اس میں بلوچ قوم کے ساتھ ظلم اور زیادتیاں کے قصے ہی ملیں گے، بلوچ قوم اور پاکستان کی ریاست کے مابین بہت ہی تلخ تاریخ کے شواہد ملتے ہیں، جو اب ناقابل برداشت حد تک پہنچ گئے ہے۔ اگر ہم تاریخ میں ذرا پیچھے جائیں، تو یہ سب واضح ہو جاۓ گا۔

کہتے ہیں کہ ہر صدی میں کوئی نہ کوئی تاریخ بنتی ہے، اور اس تاریخ کے عینی شاہدین بھی ہوتے ہیں۔ ہم بھی شاید ایک تاریخ کے عینی شاہدین میں سے ہیں، جو اس صدی میں واقع ہوا تھا۔ اور وہ واقعہ نواب اکبر خان بگٹی کی شہادت اور انکا پہاڑوں میں جانے کا تھا، جسکے بعد سے تو بلوچستان کا پاکستان کے ساتھ جو زبردستی کا رشتہ تھا، اسکی کمزور بنیادوں میں دراڑیں پڑی،اور اسکے بعد سے بلوچستان میں جو ایک خونی انقلاب شروع ہوا تھا، وہ آہستہ آہستہ اپنی منزل کی طرف گامزن ہے۔

کہتے ہیں کہ، خونی انقلاب انسانی زندگی کی بے بسی کا المناک نتیجہ ہے، ہاں بلوچستان میں جو خونی انقلاب جاری ہے، وہ اس قوم کی حق تلفی اور اسکی بے بسیوں کے سبب شروع ہوا تھا۔ ایسے ہی لوگ گھروں سے نہیں نکلتے ہیں۔ آسودہ معاشروں میں انقلاب جنم نہیں لیتے ہیں۔

یقین کیجیے، میں اپنی بات کروں گی کہ نواب اکبر بگٹی کی شہادت سے پہلے مجھے بلوچستان کی تاریخ کا کچھ بھی علم نہیں تھا۔ بلوچستان کی تاریخ کو جانے کا اشتیاق تو نواب صاحب کی شہادت کے بعد سے شروع ہوا۔ نواب صاحب کی شہادت کے وقت تو خیر میں اتنی باشعور تو نہیں تھی، لیکن انکی شہادت کے بعد سے بلوچستان کے حالات جس تیزی سے بدلے، اور جب میں نے شعور کے دہلیزِ پر قدم رکھا، تو نواب بگٹی ، بابو نوروز اور باقی بلوچ تاریخ کو جانے کا شوق پیدا ہوا۔ یہاں پر میں اپنے ایک دوست کی ایک بات کا حوالہ دوں گی، جسکا ذکر اس نے مجھ سے کیا تھا۔ وہ میری یونیورسٹی کی ایک دوست تھی ، یونیورسٹی میں فری ٹائم میں وہ مجھے ہمیشہ بلوچستان اور اسکے حالات اور واقعات کا بتاتی تھی۔ اس سے بہت کچھ سیکھنے کو ملا۔ ایک بار اس نے ایک بات کا ذکر کیا تھا۔ اور وہ بات شاید لاشعوری طور مجھے بہت پسند آ گئی ہو گی، جو وہ بات میرے دل و دماغ میں بیٹھ گئی ،اور اسکا ادراک مجھے بعد میں ہوا کہ وہ بات کتنی گہری تھی، اس نے کہا تھا، کہ 2006 کے مئی کے مہینے کی ایک شام تھی، ہم اپنے آبائی علاقے میں تھے۔ 2005 کے بعد جب بلوچستان کے حالات یکسر بدل گئے تھے، تو اس میں ایک مسلہ بجلی کے لوڈ شیڈنگ کی تھی، شام کا ٹائم تھا، لائٹ نہ ہونے کی وجہ سے ہم باہر بیٹھتے تھے ، میرے والد بی بی سی اردو پر سربین پروگرام سن رہے تھے، میں انکے ساتھ باہر بیٹھی تھی۔ گرمی اور مچھروں کی وجہ سے میں بیزار ہو گئی تو میں نے کہا کہ لوڈ شیڈنگ کب ختم ہوگی ، تو میرے والد نے کہا وہاں نواب اکبر خان بگٹی پہاڑوں میں بغیر بجلی اور پنکھے کے بیھٹے ہیں اور تم یہاں بجلی چاہتی ہو۔ میرے دوست کا کہنا تھا، کہ اس وقت تو میرے سمجھ میں نہیں آیا اور میں حیران ہو گئی یعنی کہ میرا کیا کام ہے، نواب اکبر خان سے اور انکے پہاڑوں میں بیٹھنے سے، اور وہ کیوں پہاڑوں میں ہے، انکے پہاڑوں میں جانے کا بھی مجھے سہی سے پتہ نہیں تھا، اس وقت میں اور میرے والد اکیلے بیٹھے تھے، میں نے ان سے کوئی تفصیل نہیں پوچھا۔اسکا کہنا تھا کہ میر والد کوئی سیاسی بندہ نہیں تھ، لیکن ایک بلوچ ہونے کی حیثیت سے وہ اپنے ایک بزرگ بلوچ رہنما کے لیے ہمدردی رکھتے تھے، جو ہر بلوچ رکھتا تھا،اور یہ سچ بھی تھی، اور پھر ہم وقتا فوقتاً حالات اور واقعات سنتے تھے، مجلسوں میں دوستوں سے کہ بلوچستان میں پاکستانی فوج اور نواب اکبر خان کے پیچ جنگ جاری ہے۔ تو یوں آہستہ آہستہ ہمیں حالات سے متعلق آگاہی ملتی تھی۔

اس سے پہلے تو ہم مطالعہ پاکستان والے قصے ، کہانیوں پر یقین رکھنے والے طالب علم تھے، شکر اس ٹائم پاکستان کا میڈیا کچھ آزاد تھا، اور جب لائٹ آتی تھی تو سارے گھر والے ٹی وی کے سامنے بیٹھتے اور جنگ کے حالات سنتے تھے، اور پھر ایک رات جیو نیوز میں یہ بریکینگ نیوز چلی کہ نواب صاحب کو شہید کر دیا گیا ہے، پھر اسکے بعد ہر روز ٹی وی کے سامنے بیٹھتے تھے ، بلوچ رہنماؤں کے جو انٹرویوز ہوتے انھیں دیکھتے اور سنتے تھے۔یوں اسکے بعد سے بلوچستان کی تاریخ کو پڑھنے کا جو تجسس ہوا ، اور تجسّس کو ختم کرنے کے لیے جب تاریخ کو پڑھا تو جانا مطالعہ پاکستان تو ہمیں کچھ اور ہی درس دیتا رہا ہے۔

اگر میں اپنی بات کروں تو مجھے بلوچستان کے حالات کی آگاہی کا احوال سوشل میڈیا کو جوائن کرنے کے بعد ہوا۔ کہ اصل میں بلوچستان میں کیا ہو رہا ہے، اور پاکستان کی میڈیا جس سنسرشپ کے زد میں ہے، اسکے نیوز چینلز پر بلوچستان سے متعلق ٹیکر بھی کوئی نیوز نہیں چلاتا۔

صحافت کھ طالبعلم ہونے کی حیثیت سے جب میں پاکستانی نیوز چینلز کو دیکھتی ہوں، تو مجھے بلوچستان میں سب خیر و عافیت ہی لگتی ہے۔ لیکن جب زوشل میڈیا کو کھولتی ہوں تو صحیح حالات کا علم ہوتا ہے۔بلوچستان میں ظالم و جبر اور بربریت کیسے اپنے عروج پر ہیں، بلوچ طالبات کا بلوچستان یونیورسٹی سے جبری طور پر اٹھایا جانا،اور طالبات کا کلاسز اور پیپرز کا بائیکاٹ کرکے اپنے طالبات دوستوں کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کا اظہار کرتے ہوۓ دھرنے میں بیٹھنا، ہوشاب میں معصوم بچوں کا بہیمانہ قتل اور انکے کے بزرگوں کا میتوں کے ساتھ کوئٹہ میں دھرنا دینا، سب شوشل میڈیا کے ہی توسط سے معلوم ہوتا ہے۔

کہتے ہیں کہ بزدلی ظالم ہوکر ہی قوت پا سکتی ہے، بالکل صحیح بات ہے، اب ہم اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں کہ کیسے کیسے ظلم بلوچ قوم پر ہو رہے ہیں۔ بلوچوں پھر سب سے بڑا ظلم یہ کیا گیا ہے، کہ انکو انکے بنیادی حقوق سے محروم رکھ کر انھیں غریبی کے اس دلدل میں دھنس دیا گیا ہے کہ وہ اپنے بچوں کو اچھی تعلیم تک نہیں دے سکتے ہیں، اگر کوئی بلوچ پڑھ لکھ کر باشعور ہوتا ہے، تو اسکو لاپتہ کرکے اسکی مسخ شدہ لاش پھینک دی جاتی ہے۔ دوستوں کو کہتے سنتا ہوں کہ بلوچ قوم متحد نہیں ہے، اسی لیے چکی میں پس رہی ہے۔

ایک طالب علم ہونے کی حیثیت سے جب میں دیکھتی ہوں، تو اتحاد تو بلوچ قوم میں دیکھنے کو تو بہت ملتی ہے، لیکن حیرانگی اس بات کی ہے، کہ ظلم کے خلاف جنگ میں اسے ابھی تک کامیابی کیوں نہیں ملی۔

ابھی گوادر کے احتجاج اور دھرنے کی مثال لے لیجئیے، بلوچستان یونیورسٹی میں طالبات کے دھرنے کو دیکھئیے، برمش اور حیات بلوچ کے واقعے کے وقت یکجہتی اور اتحاد کا مثال لیجیے۔ ان سب واقعات کے وقت بلوچ قوم کو کسی لیڈر نے احتجاج کے لیے گھر سے نہیں نکالا تھا، عوام نے خود ہی ہمدردی کے جذبے کے تحت یکجا ہو کر ظلم کے خلاف آواز بلند کیا تھا۔

جان نثار بلوچ بھی محاذ پر ثابت قدمی سے لڑ رہے ہیں، بقول عبد النبی بنگلزئی صاحب کے،انکا ایک انٹرویو جو انھوں نے دی بلوچستان پوسٹ کو دی تھی ، اسے جب میں نے پڑھا تو ایک سوال کے جواب میں انکا کہنا تھا کہ اگر ہم گزشتہ ادوار اور آج کے تحریک کو دیکھیں تو ظلم کے خلاف جنگ کی یہ تحریک مجھے زیادہ کامیاب لگتا ہے، کیونکہ اس بار تو ہماری بلوچ مائیں اور بہنیں بھی ہمارے ساتھ ہیں، ہمارے دانشور اور تمام مکاتب فکر کے لوگ بھی ہمارے ساتھ ہمارے ہم آواز ہیں، اس سے بہترین اتحاد اور یکجہتی کی مثال ہمیں بلوچ قوم کی تاریخ میں پچھلے ادوار کے تحریکوں میں نہیں ملتی ہے۔

بلوچ قوم کو اگر اس وقت ضرورت ہے، تو ایک ایسے لیڈر کی جو پوری قوم کو یکجا کرۓ۔ جیسے نواب اکبر خان بگٹی کے وقت پوری بلوچ قوم یک جان ہو گئی تھیں، اسی یکجہتی کی اب پھر سے قوم کو اشد ضرورت ہے۔ نواب بگٹی کی شہادت کے بعد جیسے بلوچ قوم ایک چھتری کے ساۓ تلے یکجا ہو گئی تھی۔اسی طرح اب پھر سے بلوچ قوم کو متحد ہوکر اپنی جنگ لڑنی ہوگی، بلوچ قوم کو اس محاذ میں کامیابی کوئی اور نہیں صرف بلوچ ہی دے سکتا ہے۔

جب ہم تاریخ کو پڑھتے ہیں، تو ہمیں یہی درس ملتا ہے، کہ صرف وہی قومیں اپنے مقصد، جدوجہد، اور نظریے کو پایہ تکمیل تک پہنچانے میں کامیاب ہوۓ ہیں، جنکی سرپرستی ایک رہنما (لیڈر) نے کی ہو، قوم ایک ہجوم ہے، اسے یکجا کرکے اسے بند مٹھی کی طرح مضبوط اور طاقتور کرنا ایک لیڈر کا کام ہوتا ہے۔ گاندھی، نیلسن منڈیلا، مازوے تنگ جیسے لیڈر کی بلوچ قوم کو ضرورت ہے۔ بلوچ قوم متحد ہے، وہ صرف ایک آواز کی منتظر ہے، جو انھیں گھروں سے نکال سکے، جیسے ابھی گودار کے لوگوں نے مولانا ہدایت الرحمان کے آواز پر لبیک کیا۔ اسی طرح پورا بلوچستان اپنے لیڈر کی آواز پر لبیک کرۓ گا، وہ لیڈر آۓ تو صحیح، بلوچ قوم اسکے آواز کی منتظر ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں