ماہ اکتوبر ۔ ظفر رند

146

ماہ اکتوبر

تحریر:ظفر رند

دی بلوچستان پوسٹ

کیا مائیں اسلیے بچے جنم دیتے ہیں کہ انکے سامنے انہیں بے دردی سے قتل کریں۔ اکتوبر کا مہینہ جاتے جاتے ہم سے ہماری خوشیاں ہمارے بازو ہمارے ہمسفر لیکر اپنے ساتھ لئے گئے۔

اکتوبر وہ مہینہ ہے جو ہمارے لیے کرب سے کم نہیں اکتوبر جب بھی آتا ہے گزشتہ پانچ سالوں سے ہمارے دکھ درد اور تکلیفوں میں اضافہ کرتا ہے کچھ سال پہلے ہم سے ہمارا جوانسال بھائی حاصل جان جسکی عمر 20 ہی سال تھا جس نے ابھی تک شاید خوشیاں کوئی دیکھا ہی نہیں تھا اسکے مستقبل کے خواب اسکے چہرے کی مسکراہٹ اور مستقبل کے خواہشات سب قید ہوکر ایک زور آور کے ہاتھوں جبر کا شکار ہوتے ہوئے ہم سے جسمانی طور پر بچھڑ تو گیا مگر جاتے جاتے ہمارے گھر کی خوشیاں دکھوں میں بدل کے اپنے ساتھ لے گیا جو آج تک اس کے جانے کا درد ہمارے گھر کے ہر فرد کے چہرے سے واضح نظر آتا ہے۔

حاصل جان کے جدائی کے غم کم ہوئے ہی نہیں تھے ہم اس درد اور تکلیف سے چھٹکارا نہیں پائے تھے مگر اسی دوران حاصل جان کی شکل میں ہمارے گھر میں ایک بچے کا جنم ہوا جسکا نام ہم نے حاصل ہی رکھا۔ وہ درد تکلیف تو کم نہیں ہوئے تھے مگر اس بچے کو حاصل کی شکل میں دیکر اسکا نام بھی حاصل رکھ کر ہم خود کو تسلیاں دینے لگے کہ حاصل جان نے دوبارہ جنم لیا ہے۔

وہ دوبارہ لوٹ کر ہم سے ملنے آیا ہے، اس بات کو لیکر چہروں پر ہلکی سی مسکراہٹ آئی، اب تک ایک ہفتہ پورا ہی نہیں ہوا تھا اس حاصل کو گھر میں ابھی تک بہت سے لوگوں نے دیکھاہی نہیں تھا کہ وہ اس چہرے کو دیکھ کر تھوڑا خوشی منائیں،

سب خوشیاں منانے کے انتظار میں ہی تھے کہ ایک ہفتہ پورا نہیں ہوا اور ہم سے اس بد قسمت اور بد بخت مہینہ اکتوبر نے 2 تاریخ کو ایک اور جبر کرکے ہمارے گھر کا جوانسال 10 سالہ بچہ شہید رامز جان کو ہم سے چین لیا۔

رامز جان یہی سوچ کر رات کو جلدی سویا تھا کہ مجھے صبح جلدی اٹھ کر اسکول جانا ہے، مجھے پڑھنا ہے اسکے دل میں ہزار ارمان تھے ہزار خواہشات کا خواب دیکھ رہا تھا وہ اپنے تین سالہ بہن مہرول کو یہی تسلیاں دے کر سویا تھا کہ وہ اسے صبح اپنے ساتھ باہر لیکر جائیگا اسکو چیزیں دلائیگا مگر اسکو کیا پتا تھا کہ اس ملک کے درندہ صفت اور خون خوار رات کے اندھیرے میں گھر کے اندر گھس کر اسکے سینے میں چھ گولیاں برسا دینگے اور اسے اپنے گھر سے اپنے بہن سے اپنے ماں باپ سے جدا کرینگے۔

رامز جان کی ماں کہتی ہیکہ جب یہ درندہ صفت لوگ گھر میں گھس کر میرے سامنے میرے بچے کے سینے میں گولیاں برسا رہے تھے، تو میں ہاتھ اوپر کرکے ہزار فریادیں انکے سامنے کرتا رہا مگر ان لوگوں نے بجائے میری بات سنے میرے دوسرے بچے رایان پر بھی گولیاں برسا دیں۔

رامز جان میرے سامنے تڑپ رہا تھا اور وہ تڑپ کر مجھ سمیت اپنے بابا کو آواز دے رہا تھا مگر ہمیں اسکے پاس جانے نہیں دیا گیا میں نے فریاد کرکے کہا مجھے اپنے بیٹے کے پاس جانے دیں میرے بچے کو کوئی ڈاکٹر کے پاس لے جائے مگر نہ وہاں میری فریادیں سننے والا کوئی تھا اور نہ ہی ان ظالموں کے دل میں کوئی رحم آیا یہ مزید اپنے جبر کو تیز کرتے جارہے تھے۔

ایک ماں کے دل میں کیا گزرتی، جب اسکے سامنے اسکا جوانسال بیٹا اس حالات میں ہو اور اسکا فریاد سننے والا کوئی نہ ہو، کیا بلوچ مائیں اس لیے اپنے بچوں کو جنم دیتے ہیں کہ انکے سامنے انکے بچوں کو اتنے بے دردی سے قتل کریں۔

رامز جان کو ایک مہینہ ہونے والا ہیکہ وہ ہم سے بچھڑ گیا ہے مگر اسکے جانے کے درد اور تکلیف نے پورے علاقے سمیت ملک بھر کو سوگوار کیا ہے اور اس ظالمانہ جبری نظام کو شکست دیتے ہوئے انکے حقیقی چہرے کو دنیا بھر کے سامنے بے نقاب کرکے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے امر رہا۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں