سنگت گنجل بلوچ سیاسی ورکر سے شہادت تک کا سفر – داد بلوچ

844

سنگت گنجل بلوچ
سیاسی ورکر سے شہادت تک کا سفر

تحریر: داد بلوچ

دنیا میں کچھ لوگ قربانی کا جذبہ لے کر پیدا ہوتے ہیں. اور اپنے اسی جذبے کے تحت اپنے زندگی کے مقصد کا تعین کرتے ہیں. دنیا میں ایسے کئی فرزند گزرے ہیں جن کی زندگی کا مقصد آزادی اور اپنے عوام کی خوشحالی تھا. ان لوگوں نے عوامی آزادی اور خوشحالی کے لئے جان سے بڑھ کر قربانی دی. اپنی جوانی اپنے قوم کے نام کردی، ایسے لوگ بمشکل ہی پیدا ہوتے ہیں جو اپنے عمل و کردار سے ایک نئی تاریخ رقم کردیتے ہیں.

سنگت گنجل عرف مزار بھی بلوچ قوم کے ایسے نر مزار تھے جنہوں نے اپنے عمل سے خود کو امر کردیا ہے اور ایسے لوگوں کے صف میں شامل ہوگیا جو قربانی کے جذبے سے سرشار ہے.

بلوچ قومی تاریخ میں ان ہزاروں شہیدوں کے ہمراہ گنجل بلوچ کا نام بلوچ قوم کبھی فراموش نہیں کرے گی.

سنگت گنجل بلوچ پندرہ جنوری انیس سو ستاسی کو لیاری میں پیدا ہوئے. ابتدائی تعلیم آبائی علاقے سے حاصل کی اور میٹرک لیاری کے اسکول سے 2002 میں پاس کیا. لیاری کراچی کا ایک قدیم علاقہ ہے. جو بنیادی ضروریات زندگی سے محروم ہے. اور یہاں ریاستی پالیسیاں ایسی ترتیب دی گئیں کہ نوجوانوں کی ذہنیت مزید علم حاصل کرنے کے بجائے کسی کمپنی میں ملازمت کی ہوتی ہے. میٹرک امتحان پاس کرنے کے بعد سنگت گنجل بلوچ نے تعلیم کو خیرباد کیا.

سنہ دو ہزار گیارہ کو دوبارہ پرائیوٹ آرٹس کا امتحان دیا اور دو ہزار بارہ کو کراچی بورڈ سے انٹر کا امتحان پاس کیا اور دو ہزار پندرہ کو کراچی یونیورسٹی میں شعبہ تاریخ میں داخلہ لیا. لیکن کچھ وجوہات کی بناء پر ایک سال کے عرصے میں تعلیم کو خیر باد کیا.

سنگت گنجل بلوچ فٹبال کے بھی کھلاڑی رہ چکے ہیں اور اپنے علاقائی فٹبال ٹیم کی نمائندگی فاروڈ پوزیشن کی حیثیت سے کرچکے ہیں.

سنگت کی زندگی بھی ایسی زندگی تھی جو لیاری کے بیشتر نوجوان کی تھی لیکن بی ایس او میں شمولیت کے بعد سنگت کی زندگی میں نمایاں تبدیلی دیکھنے کو آئی جس کا اعتراف سنگت کئی دوستوں کے سامنے کرچکے ہیں کہ اگر بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن نہ ہوتا تو میں آوارہ گردی کرتا یا کسی گینگ میں شامل ہوجاتا کیونکہ دو ہزار آٹھ وہ سال تھا جب پورے لیاری میں گینگ وار کا راج تھا اور کئی نوجوان اس ریاستی سازش کا شکار ہو کر گینگ وار کا حصہ بن گئےلیکن بی ایس او کی تربیت نے سنگت گنجل بلوچ کو ایک ایسے راہ کا مسافر بنادیا جہاں دکھ، تکلیف، جبری گمشدگی اور موت کا ہر روز سامنا کرنا پڑتا ہے. لیکن آزادی کے جذبے سے سرشار سنگت کی ہمت اور قدموں میں کبھی لغزش نہ آئی. بلکہ جبری گمشدگی کے واقعات اور سنگتوں کی شہادت نے اس کمزور جسم کے مالک کو مزید مضبوط بنادیا.

سنگت گنجل بلوچ چوبیس ستمبر دو ہزار اکیس کو دشمن فوج کے ساتھ ایک جھڑپ میں اپنے پانچ ساتھیوں کے ہمراہ بہادری کے ساتھ لڑتے ہوئے شہید ہوئے.

سیاسی زندگی.
سنگت گنجل بلوچ نے دو ہزار چھ کو اپنی سیاسی زندگی کا آغاز بلوچستان کی سب سے متحرک تنظیم بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد سے کیا اور مختلف ادوار میں مختلف عہدوں پر کام کیا. ڈپٹی یونٹ سیکرٹری،یونٹ سیکرٹری اور زونل عہدوں پر بھی فائز رہے. دو ہزار تیرہ سے لے کر دو ہزار پندرہ کے سیشن تک بی ایس او کراچی زون کے صدر رہے. جبکہ دو ہزار پندرہ کے سیشن میں بلامقابلہ مرکزی کمیٹی کے ممبر منتخب ہوئے اور اپنی سیاسی ذمہ داریوں کو بحسن و خوبی سر انجام دیا. دو ہزار بارہ کے سیشن کے بعد جب تنظیم کے خلاف ایک محاذ کھولا گیا. ، تنظیم کے خلاف منظم پروپگنڈہ شروع کیا گیا، تو سنگت تنظیم کے دفاع میں پیش پیش تھے. 2018 کے کونسل سیشن میں بی ایس او آزاد سے فراغت کے کچھ عرصے بعد بلوچ مسلح تنظیم بی ایل اے میں شمولیت اختیار کرلی. مختلف محاذوں میں حصہ لیا اور اپنی قابلیت اور جدوجہد سے لگن کی وجہ سے سپاہی سے کمانڈر کے عہدے تک جاپہنچے اور اپنی شہادت تک تمام ذمہ داری بہتر طریقے سے سر انجام دیتے رہے.

میرے پاس وہ الفاظ نہیں کہ میں سنگت کے بارے میں لکھ سکوں کیونکہ سنگت گنجل کا کردار و عمل اتنا پختہ تھا جہاں الفاظ سے اس کے کردار کو بیان نہیں کرسکتا کیونکہ اس کا کردار ہی اسکی پختگی اور ہمت کا ثبوت تھا.

بی ایل اے چیف سنگت بشیر زیب بلوچ کہتے ہیں کہ سنگت گنجل بلوچ، بلوچ قومی تحریک میں ایک بے مثال کردار کے مالک جہدکار تھے، آپ نا صرف پیشہ ورانہ صلاحیتوں کے مالک ایک جنگی کمانڈر تھے بلکہ ایک سیاسی استاد بھی تھے۔

واقعی سنگت ایک سیاسی استاد تھے، وہ جب زونل صدر تھے تو ہر وقت اپنے ممبروں کو تلقین کرتے اور ان کی حوصلہ افزائی میں پیش پیش تھے.

بلوچ قومی تحریک کے لئے ہزارہا نوجوان شہادت کے رتبے پر فائز ہوئے، ہزارہا نوجوان آزادی کی خاطر پس زندان رہے، یہ تمام شہدا بلوچ قومی تاریخ میں ہمیشہ یاد رہے گا، ایسے بہت سارے دوست ہے جو حق آزادی کی خاطر شہید ہوئے جنہیں میں انفرادی حیثیت سے نہیں جانتا لیکن سنگت کو نزدیک سے دیکھنے کا موقعہ ملا، سنگت کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا، سنگت کی سیاسی صلاحیتوں سے سیکھنے کا موقع ملا، میں یہ کہنے میں فخر محسوس کرتا ہو کہ میں شہید کا ساتھی ہو جس نے ہر مشکل و مصائب کا مردانہ وار مقابلہ کیا.

سنگت گنجل کی شہادت ایک نقصان ہے لیکن شہادتیں ہی قومی تحریک کو ایندھن فراہم کرتی ہیں اور شہید مزار کی قربانی اور جذبہ شہادت ان کے کئی اور دوستوں کو ان کی طرح مسلح جدوجہد کی طرف راغب کرتا رہے گا کیونکہ ایک طاقت ور دشمن سے فتح اس وقت حاصل ہوتی ہے جب اس قوم کے نوجوان اس حقیقت سے واقف ہو کر جنگ کا حصہ بنیں کہ طاقت کو طاقت سے روکا جاسکتا ہے اور بندوق کی گولی کو بندوق کی گولی سے ہی خاموش کیا جاسکتا ہے.

سنگت گنجل جسمانی طور پر ہم سے جدا ضرور ہوئے ہیں لیکن سنگت کا فکر ہمیشہ ہماری رہنمائی کرتا تھا اور کرتا رہے گا. سنگت گنجل ہمیشہ شور کے پہاڑوں پر موجود رہے گا جب تک بلوچ اپنی آزادی حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوتے سنگت مزار بلوچ کی بندوق پارود اور بلوچستان کے پہاڑوں میں دشمن افواج پر گولیاں برساتا رہے گا.


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں