سر بلند، ہمت و حوصلہ اور حکمت کا نشان ۔یاسین بلوچ

631

سر بلند، ہمت و حوصلہ اور حکمت کا نشان

تحریر:یاسین بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

شعور سوال کرتی ہے اور اس کے جواب حقیقت میں بہت تلخ اور تباہی مچانے والے ہوتے ہیں۔اسی لیے شعور کو ہر وقت دبایا اور دفنایا جاتا ہے ۔لیکن شعور بھی بہت ضدی اور حسدی ہے، دبانے اور دفنانے کے باوجود بھی  زیر زمین ہزاروں فٹ گہرائی سے سر اٹھاکر ظلم،ناانصافی ،اور جہالت کو زیر کرنے پر مجبور کرتی ہے۔ لہذا شعور بن کر دبنے اور دفن ہونے سے نہ ڈریں۔ بلکہ شعور بن کر روشن آسمانوں پر چمکتے رہیں۔

سقراط کا زہر کا پیالہ، گلیلیو کا فرسودہ اعتقادات سے انکار، مارکس اور اینگلز کا سرمایہ داری کے خلاف تعلیمات ، چے گویرا کا انقلابی جد وجہد ، بھگت سنگھ کا پھانسی کا پھندا ، امیر جان کا گولی کا آخری فلسفہ، استاد اسلم اور لمہ یاسمین کا اپنے لخت جگر کا فدائی کے لیے رخصتی اور شہید سر بلند کے جسم پر بارود سے بھرا باندھا ہوا جیکٹ ایک ہی زنجیر میں لدی ہوئی شعور ہے ۔

سر بلند واقعی تم عظیم تھے اور عظیم ہو ۔تمہارے سامنے سب لفاظی کرنے والے دانشور،بڑے بڑے پارلیمنٹیرینز ،سوشل میڈیا پر شور مچانے والے ایکٹوسٹ ، سڑکوں پر اپنی ذاتی زندگی کے لئے زندہ باد اور مردہ باد کہنے والے اور اپنی ذاتی زندگی کے لیے جینے والے بہت ہی حقیر ہیں ، تم  ان سب سے عظیم ہو ، تم انتہا شعور ہو ۔

سر بلند تم واقعی جسمانی طور پر (یقین اب بھی نہیں آتا) ہم سے دور ہو لیکن میں جب بھی صبح دوپہر شام رات ہر لمحہ تمہیں یاد کرتا ہوں  تو خود میں ایک بے غرض اور  بے لگام خواہشوں سے پاک انسان اپنے وجود میں پاتا ہوں، کیونکہ اتنی چھوٹی سی عمر میں تم اتنے میچور اور آگاہ تھے کہ تمہیں اس سے غرض ہی نہیں تھا کہ کون کتنا غرض رکھتا ہے اور کون بے غرض ہے۔

تم مہر زمین میں اتنے  ڈوب گئے تھے کہ تمہیں یہ فرصت ہی نہ ملی کہ یہ سوچتے  کہ یہاں  بہت سے لوگ قومی آشنائی سے دور بس اپنی ذاتی زندگی کے لیے جی رہے ہیں، بہت سے لوگوں کو یہ احساس اور شعور تک ہی نہیں کہ انکے اپنے سرزمین پر ان پر کتنا ظلم ہورہا ہے اور انکے سرزمین کے وسائل پر غیروں کا قبضہ ہے، یا کہ جو  سردار ، میر ،معتبر ،وجہ دانستہ طور پر اتنے اغیار پسند ہیں کہ اغیاروں کے ساتھ ملکر اپنی سرزمین، شائستہ تہذیب اور اپنے آنے والے نسلوں کی آزادی کی دلالی محض چند عارضی مراعات  اور عیاشی کی خاطر کررہے ہیں۔قومی جہد میں شاملِ ہوکر بھی بہت سے جہد کار  ذاتی ضد اور انا کی زنجیر کو خود میں توڑ نہ سکے ۔

تم تو بس بے غرض اور اپنی ذاتی زندگی سے دور مہر زمین میں جیتے رہے اور مہر زمین پر قربان ہوگئے۔ کیونکہ تم انتہاء شعور پر تھے۔
سر بلند جب بھی تمہاری پیاری آنکھیں مجھ میں سما جاتی ہیں تو میں خود کو دنیا کا طاقتور انسان سمجھنے لگتا ہوں کیونکہ اتنی کسان سالی میں  ہمت , قوت اور حکمت سے پر ہوکر  تم نے خود کو طاقتور سے طاقتور سمجھنے والی ریاستوں کے ایوانوں کو لرزہ دیا۔ دشمن کو اس قدر حیران کردیا ہے کہ اسکی نیندیں حرام ہوگئی ہیں اور وہ اس قدر حواسِ باختہ ہے کہ اسے ہر بلوچ  اپنی طرف سربلند آتے ہوئے دیکھتا ہے۔

تم رژن ہو، نور ہو، سر بلند بڑے بڑے فلاسفروں ، روحانی پیشواؤں اور دانشوروں سے سنا تھا کہ خوش رہنا ہے تو لمحوں میں جیو ماضی اور مستقبل کے غموں سے بے خبر ہو کر۔ لیکن کہنے اور کرنے میں بہت فرق ہوتا ہے،کہنا بہت آسان اور کرنا پہاڑ توڑنے کے مترادف، اپنی عمر کے چالیس سالوں میں آج تک کوئی بھی یہ اثر مجھے نہیں دے سکا جو تم نے بس ایک ہی لمحے میں مجھ میں بھر دیا۔کیا کوئی اپنے موت کا  انتظار  بھی  اتنی شدت اور پر سکون ہوکر  کرتا ہے ؟

لوگ تو یہاں اپنے چھوٹے سے چھوٹے ذاتی مسئلوں میں اتنے بے سکون اور بے چین ہوکر اتنی سازشیں اور نفرتیں پھیلاتی ہیں کہ جو نسل در نسل تباہی کے باعث بنتے ہیں اور انکی سوچ چھوٹی چھوٹی بہت ہی معمولی چیزوں پر جکڑی ہوئی ہوتی ہے اور وہ ان پر اتنے ڈیپریس اور پریشان ہوتے ہیں جیسے ان پر پہاڑ گری ہے۔

لیکن ہم جیسے بے علم اور بے عمل لوگوں کو کیا خبر جسے ہم موت سمجھتے تھے وہ سر بلند کے لیے زندگی اور تاریخ ہے۔

واقعی سر بلند تم زندگی بنکر تا ابد کائنات کے ہر مہکتی ہوئی پھول کے خوشبوؤں میں شامل،ساحل زر بلوچ پہ کھڑی ہر مظلوم اور بے بس کا سہارہ اور انکی تاریخ ہو۔

اور ہم؟

شہید سر بلند کے شعوری فیصلے نے انکو اپنی منزل تک پہنچا دیا اور ہمارے کندھوں پر یہ زمہ داری ڈالی کہ انکی منزل کی روشنی سے ہم منزل دائمی تک پہنچ جائیں۔

آج ہم پر فرض عائد ہوتا ہے کہ ہم اپنی  ذاتی زندگی کو بلوچ کی اجتماعی بقاء کے لئے قربان کردیں۔بے غرض ہوکر اپنے قوم کی بیداری کے لیے کسی بھی قربانی سے دریغ نہ کریں۔

فلسفہ شہید سر بلند سے لیس ہوکر ہمت، حوصلہ  اور حکمت سے  بلند ترین عزم اور پوری طاقت کے ساتھ بلوچ قومی آجوئی کے لیے دن رات ایک کریں۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں