جرمنی اور نیدرلینڈز میں پاکستانی مظالم کے خلاف مظاہرہ کیا گیا۔ بی این ایم

204

بلوچ نیشنل موومنٹ کے مرکزی ترجمان نے کہا کہ بین الاقوامی سطح پرجاری پارٹی کے جاری آگاہی مہم کے تحت ہفتہ کے روز جرمنی کے شہر بیلفیڈ اور نیدرلینڈز کے دارالحکومت ایمسٹرڈم میں بلوچ نسل کشی اور پاکستانی ریاست کے دیگرمظالم کے خلاف احتجاجی مظاہرہ کیا گیا۔ مظاہرین نے ہاتھوں میں پلے کارڈز، بینرز اور جبری گمشدگیوں کے شکار لوگوں کی تصویریں اٹھا کر بلوچستان میں پاکستانی مظالم کے خلاف نعرہ بازی کی۔

بلوچ نیشنل موومنٹ جرمنی کے زیر اہتمام مظاہرہ میں گزشتہ ہفتے بلوچستان کے ضلع تُربت کے علاقے ہوشاب میں پاکستانی فورسز کے ہاتھوں شہید ہونے والے کمسن بچےاللہ بخش اور شراتون کے قتل، بلوچستان کے علاقے واشک ٹوبہ سے جبری گمشدگی کا شکار ہونے والے دس سالہ بچی صنم جمیل اور چھ سالہ گزین جمیل کی جبری گمشدگی اور بلوچستان میں جاری پاکستانی ریاستی بربریت کیخلاف لوگوں کو آگاہی دی گئی۔

بی این ایم کے زیراہتمام مظاہرے میں جرمن ایکٹوسٹس رفال اور دیگر نے حصہ لے کر اظہار یکجہتی کرتے ہوئےبلوچستان میں پاکستانی جبر اور بلوچ نسل کشی کی مذمت کی۔

مظاہرے سے بی این ایم جرمنی زون کے سابقہ جوائنٹ سیکریٹری ندیم سلیم نے اپنے خطاب میں کہا کہ پاکستان بلوچ قوم کی نسل کشی کر رہی ہے اور سول بیوروکریسی پاکستانی فوج کی جنگی جرائم کو چھپانے کی کوششیں کر رہی ہے۔ حالیہ واقعات میں ڈپٹی کمشنر کیچ نے تاج بی بی قتل کیس میں شواہد کو مسخ کیا۔ اسی طرح ہوشاب واقعہ میں ایک بار پھر ڈپٹی کمشنر کیچ نے آرمی کی جرم کو چھپانے کی کوشش کی۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان بلوچ قومی سوچ کو دبانے کیلئے آئے روز ایک نئے ترکیب کے ساتھ آکر ظلم و جبر کی نت نئی تاریخ رقم کر رہی ہے۔ ہوشاپ میں نہ صرف کمسن بچے قتل کیے بلکہ خاندان کو احتجاج سے روکنے کے لیے دیگرحربوں کے ساتھ شہید بچوں کو زبردستی دفنانے کی بھی کوشش کی گئی۔

بلوچ نیشنل موومنٹ کے یونٹ سیکریٹری جبار بلوچ نے کہا کہ پاکستان ایک دہشتگرد ریاست ہے۔ دنیا میں جہاں کہیں دہشتگرد کا واقعہ ہو، اس کے تانے بانے جاکر پاکستان اور پاکستان کی دہشت گر فوج اور اس کے جاسوسی ادارے آئی ایس آئی سے جاکر ملتے ہیں۔ اس لیے ہم دنیا کے تمام ممالک سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ پاکستان کی مالی معاونت بند کردیں کیونکہ اسی مدد نہ صرف بلوچستان بلکہ دنیا بھر میں دہشتگردی پھیلا رہی ہے۔

بی این ایم کے ممبر بدل بلوچ نے کہا بلوچستان میں پاکستان کی جانب سے بلوچوں کی نسل کشی جاری ہے۔ اس نسل کشی میں نہ کوئی بزرگ محفوظ ہے اور نہ بچے اور خواتین محفوظ ہیں۔ پاکستانی جبر میں بتدریج اضافہ دیکھنے میں آ رہی ہے۔ یہ ہماری قومی ذمہ داری بنتی ہے کہ ہم مہذب دنیا کے سامنے بلوچستان میں ہونے والی انسانی حقوق کی پامالیوں کو ظاہر کریں۔
احتجاجی مظاہرے سے بی این ایم جرمنی زون کے ممبر شار حسن بلوچ، ماجد بلوچ، عبدالحمید اور دیگر مقررین نے خطاب میں کیا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان نے بلوچستان کوایک فوجی چھاونی میں تبدیل کردیا ہے۔ مہذب اقوام کا یہ فرض بنتا ہے کہ وہ پاکستانی جبر کے شکار بلوچوں کی ریاستی قتل کا نوٹس لیں۔

مظاہرین نے مقامی لوگوں میں جرمن اور انگلش زبان میں ایک پملفٹ تقسیم کیا جس میں ہوشاب اور واشک واقعہ میں بچوں کی قتل اور جبری گمشدگی سمیت سی ٹی ڈی کے ہاتھوں جبری گمشدگی کے شکار لاپتہ افراد کی جعلی مقابلوں میں قتل اور ریاستی مظالم کی تفصیلات بیان کی گئیں۔

بلوچ نیشنل موومنٹ نیدرلینڈ زون کی جانب سے بلوچ نسل کشی، وا شک میں بچوں کی جبری گمشدگی اور ہوشاب میں بچوں کے قتل کے خلاف احتجاجی مظاہرہے کا اہتمام کیا گیا۔ مظاہرہ نیدرلینڈ کے دارالحکومت ایمسٹرڈم میں ڈام اسکور میں کیا گیا۔ اس میں لوگوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔ مظاہرین نے بینرز، پلے کارڈز اور پاکستان کے ہاتھوں لاپتہ اور شہید کئے گئے بچوں کی تصاویر اٹھائی ہوئی تھیں۔

مظاہرین نے بلوچستان میں انسانی حقوق کی پامالی اور پاکستانی مظالم کے خلاف نعرہ بازی کی۔ مظاہرین نے مقامی لوگوں میں آگاہی کیلئے پمفلٹ تقسیم کئے۔ بی این ایم نیدرلینڈ کے ممبر لطیف بلوچ نے پمفلٹ پڑھ کر سنایا۔

مظاہرین سے خطاب کرتے ہوئے بی این ایم نیدرلینڈ زون کے صدر کیّا بلوچ نے کہا کہ یہ جبر اور ظلم کی داستان گزشتہ سات دہائی سے سن رہے ہیں۔ پاکستانی فوج کی بربریت دن بہ بدن بڑھتی جارہی ہے۔ پاکستان بلوچ قوم کی نسل کشی کر رہی ہے۔ آج دنیا بلوچ کی نسل کشی میں خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔ پاکستان نے یہی نسل کشی بنگالیوں کی تھی۔

شاکر بلوچ نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پاکستانی فوج ہمارے بچوں، عورتوں اور بزرگ بوڑھوں کو بھی نہیں بخشتا ہے۔ انہیں اٹھاکر لاپتہ کیا جا رہا ہے۔پاکستانی بربریت کے شکاربلوچ قوم دنیا کی طرف دیکھ رہا ہے کہ وہ ہمیں اس انسانی المیے سے نجات کے لیے آگے بڑھیں۔ ہم یہ سوال کرنا چاہتے ہیں کہ کیا بلوچ کو اس دنیا میں جینے کا کوئی حق نہیں ہے۔ کیا بلوچ کے حقوق انسانی حقوق نہیں ہیں۔

مظاہرین نے عالمی اداروں مہذب اقوام اور انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں اور آزادمیڈیا سے اپیل کرتے ہوئے کہا کہ مقبوضہ بلوچستان میں پاکستانی فوج کے ہاتھوں جاری بلوچ نسل کشی کا نوٹس لیا جائے۔

انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں اس وقت بدترین انسانی بحران جنم لے رہا ہے۔ اگر مہذب دنیا اس جبر پر خاموش رہا توپاکستانی بربریت میں کمی کے بجائے اضافہ ہی ہوگا اور وہ بلوچستان کو
ایک قبرستان میں تبدیل کرنے سے نہیں کترائے گا
۔