حالات کے تقاضے – حکیم واڈیلہ

377

حالات کے تقاضے

تحریر: حکیم واڈیلہ

دی بلوچستان پوسٹ

دنیا کے پہلے انسان حضرت آدم علیہ السلام تھے؟ منو تھے ؟ پرومیتھس اور اتھینا کے ہاتھوں بنا ہوا شخض تھا یا اس دیوی کے ہاتھوں بنی ہوئی مخلوق، جو چینی روایات کے مطابق پانیوں پر اڑتی تھی؟

آج کی ترقی یافتہ دنیا میں جہاں ہر ایک سوال کے ہزاروں بلکہ لاکھوں جوابات تلاش کئے گئے ہیں، وہیں ترقی یافتہ معاشروں میں اب یہ نظریہ بھی تبدیل ہورہا ہے کہ آپ صرف صحیح یا غلط نہیں ہوسکتے ہیں۔ بلکہ ایک ہی وقت میں دو مختلف سوچ، نظریات یا ایک ہی سوال کے دو مختلف جوابات رکھنے والے اشخاص میں کوئی صحیح یا غلط نہیں قرار دیے جاتے بلکہ ان دونوں کے جوابات ان کی رائے کی اہمیت، انکی سوچ و نظریات کی عزت اور انکی شعوری بردباری کو جانچ کر انکی علمی صلاحیت پر کام کرنے پر توجہ دی جاتی ہے۔

ایسا نہیں کہ ترقی یافتہ ممالک یا مہذب معاشروں میں ایسی تبدیلیاں راتوں رات رونما ہوئی ہیں، مہذب معاشروں کی ماضی سے پتہ چلتا ہے کہ انہوں نے آج کا نظام اپنی ان غلطیوں، کوتاہیوں اور ناکامیوں سے ہی سیکھ حاصل کرکے ممکن بنائی، جو ان کے تاریخ کے پنوں میں سیاہ لفظوں میں درج ہیں۔

آج کا ترقی یافتہ مغربی تہذیب تاریخ میں ایک سیاہ کردار کے سوا اور کچھ نہ تھا، مغربی ممالک کا دنیا کے دیگر براعظموں پر قبضہ جمانا وہاں کے لوگوں کے آباواجداد کے زمینیں اور جائیدادیں لوٹنا، وہاں کے سیاسی نظام کو اپنی ضروریات کے مطابق بدلنا اور اسے ترقی کا نام دینے جیسے سیاہ کردار جب آشکار ہوئے اور جب مغربی ممالک میں موجود علم اور ذہانت رکھنے والے دانشوران نے ایسے سوچ کی مخالفت کی اور محکوم اقوام کی جدوجہد اور کاوشوں نے سامراجیت کو شکست سے دوچار کیا اور سامراج آپسی لڑائیوں میں بھی انتہائی کمزور پِڑ گئی، تب انہیں اس حقیقت کا اندازہ ہوا کہ ترقی یافتہ مہذب معاشرہ بننے کی خاطر اہم ترین چیز ایٹم بم، جدید ہتھیار اور دیگر اقوام پر قبضہ نہیں بلکہ اس کی بنیادی وجہ علم شعور اور سائنسی سطح پر پیش قدمی کرنا ہے۔

اگر قبضہ گیریت ہی کسی کو عظیم بناتا تو آج برطانوی سامراج اپنی سابقہ شکل میں موجود ہوتا، سپر پاور کا دعویٰ کرنے والا امریکہ ویتنام میں شکست سے دوچار نہ ہوتا، اور نہ ہی بیس سالہ خونی مہم کے بعد طالبان سے مذاکرات کرکے افغانستان سے راہ فرار اختیار کرتا۔ اگر آج دنیا میں کسی قوم اور معاشرے کی تعریف کی جاتی ہے تو وہ انکی جنگی صلاحیت اور ایٹم بم کے سائز پر نہیں ہوتی بلکہ ایک معاشرے کی مہذب ہونے کی دلیل وہاں کے عوام کی حالت زندگی، صحت، تعلیم اور اظہار آزادی ہوتی ہے۔

بحیثیت قوم، بلوچ بھی اسی گلوبل ولیج کا حصہ ہے اور دنیا کے بدلتے حالات اور واقعات بلوچ قوم پر، اس خطے پر، یہاں کے عوام پر بھرپور اثر انداز ہوتے ہیں۔ اب سوچنے کی بات یہ ہے کہ بلوچ ان حالات سے نمٹنے کے لیے کس حد تک تیار ہے۔ کیا ہم کسی صدمے کو برداشت کرنے کے قابل ہیں؟

کیا ہم کسی بھی سخت ترین حالت کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں؟ کیا ہمارے پاس مجموعی طور پر ایک ایسی جامع منصوبہ بندی ہے جو کسی بھی قیامت انگیز حالت میں رہنمائی کرتے ہوئے بلوچ قوم کو اندھیروں سے روشنی کی جانب مائل کرنے کی صلاحیت رکھتی ہو؟ کیا ہم خطے کے بدلتے ہوئے حالات کو اپنی قومی بقا اور ممکنہ طور پر بلوچوں کی طویل ترین جدوجہد کی حق میں بدلنے کی منصوبہ بندی رکھتے ہیں یا پھر ہم آج بھی ماضی کو دہرائے جانے کی انتظار کرینگے؟ کیا بحیثیت قوم (بھڑک بازیوں، تاریخی حوالہ جات سے قطع نظر) زمینی حقائق کو نظر انداز کرتے ہوئے اس کبوتر کی طرح آنکھیں بند کرکے یہ سوچ سکتے ہیں کہ شکاری مجھے نہیں دیکھ پارہا یا پھر ہم آنکھیں کھول کرایسی اڑان بھرنے کی جدوجہد کرینگے جو کم از کم زندگی بقا اور جدوجہد کی روانگی کی ضامن ہوسکتی ہو۔

یقینی طور پر بلوچ قومی جدوجہد میں مجموعی طور پر منصوبہ بندی کی ضرورت کو درگزر نہیں کیا جاسکتا لیکن اس کا مقصد ہرگز یہ بھی نہیں کہ بلوچ قومی جدوجہد میں برسرپیکار رہنماوں اور تنظیموں کی قربانیوں اور انکے صلاحیتوں پر ذرہ برابر بھی شک یا بے باوری کی گنجائش ہو۔ بلکہ درج بالا سوالات کا مقصد ہی ممکنہ طور پر پیدا ہونے والے ان خطرناک حالات سے بچنے کی جانب اشارہ ہے جو بلوچ تحریک کے حوالے یقیناً سنگین نتائج کا حامل ہوسکتا ہے اب وہ نتائج مثبت ہوتے ہیں یا منفی اس حوالے سے منصوبہ بندی کرنا ہی موجودہ حالات میں اہم ترین پہلو ہونا چاہیے۔

اگر اب بھی سطحی اور غیر ضروری نکتہ چینی، پاؤں کھینچنے اور منصوبہ بندی کی جگہ غیر فعالیت ، عمل سے بیگانگی اور صرف فٹبال کے میدان میں موجود اس تماشائی کا کردار ادا کیا جائیگا جو بیک وقت دونوں ٹیموں کے کھلاڑیوں کو دور سے آواز لگاکر یہ کہہ رہا ہوتا ہے کہ وہ کس طرح کھیلیں تو یقیناً نتیجہ بھی وہی ہوگا جو اس کی چیخنے کا نتیجہ ہوتا ہے یعنی کہ آپ کی چیخ و پکار بے معنی ہوگی۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں