بلوچستان چاند کو روئے، دل کو، یا یار کو روئے؟ ۔محمد خان داؤد

183

بلوچستان چاند کو روئے، دل کو، یا یار کو روئے؟

محمد خان داؤد

دی بلوچستان پوسٹ

سندھ اور بلوچستان میں جتنے بھی مارے گئے۔ اپنے دیس پہ وارے گئے۔ وہ چاند تھے
وہ دیس بھگت تھے، دیس کی محبت کے پہلے چاند تھے۔ پر تاریخ نے گولی سے گھائل کرکے تاریخ کا خونی چاند بنا دیا۔ وہ جو ماہ تمام تھے۔ وہ جو عشق میں پو رے پو رے تھے۔ وہ جن کے دل دھرتی اور دھرتی باسیوں کے لیے دھڑکتے تھے۔ وہ جو تاریک گلیوں میں مارے گئے۔ وہ جو عشاق کے قافلوں کے اول اول مسافر تھے۔ وہ جو جوگی تھے۔ وہ جو عشق میں بیِن کی طرح بجتے تھے۔ بندوق نے ان عشق کی بینوں کو گھائل کر دیا۔ وہ کونج مثل تھے، وہ جو دھرتی کی گونج بن کر رہ گئے۔ سوال یہ نہیں کہ وہ کون تھے؟ سوال یہ ہے کہ وہ کیوں تھے؟ جن کے گھائل جسم جب سے دھرتی میں دفن ہوئے ہیں دھرتی دیوانی ہو چکی ہے۔

وہ عشق کی گلیوں کے مسافر تھے۔ وہ محبت بھری صدا تھے۔ وہ وشال آکاش تھے، جہاں پر کونجیں محبت سے اُڑا کرتی ہیں۔ جب ایسے وشال دھرتی جیسے دل کو گھائل کیا جاتا ہے، تو کونجیں سراپا چیخ بن جا تی ہیں!
اب کہاں ہے وشال آکاش؟
اب کہاں ہے محبت کے فقیر؟
اب کہاں ہیں عشق کی تتلیاں؟
اب کہاں کے ہیں پیار کے رنگ؟
اب تو سب رنگ سانول ہیں
اب تو ماتمی موسم ہے
اورمیندرو گھائل ہو کے دفن بھی ہو چکے
اور کونجیں بال کھولے ہزاروں سالوں کا ماتم کر رہی ہیں

وہ جن کو عشق کی گلیاں بننا تھا۔ وہ مقبرے بن گئے اور دھرتی ایسے مقبروں کا بار برداشت نہیں کرتی!
وہ جنہیں اعلان بننا تھا”اعلان ہزاریں مان نہ رگو“ وہ اداس خاموشی بن گئے۔ وہ جن کی لال سرخی دیکھ کر گلاب رنگ پکڑتے تھے۔ وہ دفن ہو چکے۔ وہ جن کے بدن کی خوشبو سے چاند مدہوش ہوا کرتا تھا۔ اب چاند پہاڑوں پر رکھے اداس پتھروں سے سر ٹکرا رہا ہے۔ چاند زرہ زرہ ہو رہا ہے۔ چاند مر رہا ہے۔ چاند مر چکا ہے۔ جن کے پسینے سے موکھی اپنی مہ کے مٹکے بھر لیتی تھی۔ وہ تو متارے کب کے جا چکے۔ اب متا رے کب لوٹیں گے؟ کون جانے اور کیوں جانے؟

سب کا درد ایک جیسا۔ سب درد کی ٹھیسیں ایک جیسی۔ سب کے قبریں ایک جیسی۔ سب قبروں پر ماتم کرتا چاند ایک جیسا۔ سب شہید ایک جیسے۔ سب شہیدوں کے بدن سے ٹپکتا لہو ایک جیسا۔ لہو رنگ ایک جیسا۔
سرخ سرخ سرخ
سب کے بدن ایک جیسے، بدنوں سے نکلتی مہک ایک جیسی، گھائل ایک جیسے اور گھائل جسموں سے آخری فریاد ایک جیسی کہ
”یہ لہو بھگوئی آزادی
انسان میں بوئی آزادی
اے دودا میں قربان گئی
ساری چنتا اس آن گئی“

جب سب بھولے جائیں گے، تب شہید یاد آئیں گے۔ وہ شہید جو دھرتی پر وارے گئے، وہ شہید جو اپنوں پہ وارے گئے۔ان شہیدوں کو عام مائیں نہیں جنتی۔ان شہیدوں کو عام دھرتی اپنے سینے پر نہیں کھلاتی۔ان شہیدوں کا لہو عام نہیں ہوتا،یہ شہید خاص مٹی سے گوندے جا تے ہیں۔انہیں خاص مائیں جنم دیتی ہیں۔ان کا جنم خاص دھرتی پر ہوتا ہے،انہیں خاص دھرتی سنبھال کر بڑا کرتی ہے اور خاص لہو ان کی رگوں میں گردش کرتا رہتا ہے۔وہ خاص لہو انہیں بے چین کرتا ہے،اور یہ دھرتی پر وارے جا تے ہیں اور خاص دھرتی میں دفن ہو کر دھرتی کو دیوانہ کر جا تے ہیں اور وہ قبریں دھرتی پر بار بن جا تی ہیں
کب تک
جب تک روز محشر ہو
اور دھرتی انہیں پھر سے حاملہ ماؤں کی طرح جنے!
اور وہ خدا کا دامن پکڑے پوچھیں کہ انہیں کیوں قتل کیا گیا
وہ جن کا عشق گناہ ٹہرا! وہ جن کا علم گناہ ٹہرا!وہ جن کا قلم گناہ ٹہرا، وہ جن کا جنوں گناہ ٹہرا
وہ جو عاشقوں کے قبیلے کے پہلے مقتول ہیں، وہ جو دھرتی کے حلالی فرزند ہیں
وہ جو دھرتی سے باہر بھی دھرتی سے جڑے رہے، وہ جو وہاں بھی دھرتی سے محبت کی باتیں کرتے رہے جہاں زلفوں کی باتیں کی جا تی ہیں، وہاں بھی ان کی بانہوں میں دھرتی کی زنجیریں رہیں جہاں لوگ محبت کے اسیر ہوکر حسیناؤں سے قریب ہو جاتے ہیں اور جسموں کی رقابت میں اُڑتے رہتے ہیں
پر وہ تو وہاں بھی
بولی،
ماں
محبوبہ
اور دھرتی کے عشق کی باتیں کرتے رہے
وہ اسیرانِ بولی تھے ماں کی بولی دھرتی کی بولی محبوبہ کی بولی!
وہ اسیرانِ عشق تھے ماں سے عشق محبوبہ سے عشق اور دھرتی سے عشق
ایسے عاشقانِ دھرتی کے مقتولین بن جانے پر دھرتی ہوش گنوا بیٹھتی ہے
اور چاند ہزاروں دنوں کا ماتم کرتا ہے
بلوچستان ساجد کے درد میں ایک آنسو بن کر ٹھہر گیا ہے
نمکین آنسو،
دردریلا آنسو
ایک ایسی یاد
جس یاد کے لیے ایاز نے کہا تھا کہ
”گھٹائیں جب بھی جھوم کر
گگن گگن کو چوم کر
گلی گلی برس پڑیں
بنوں میں مور ناچ اُٹھیں
بھرا ندی کا نیر ہو
تو اس سمے نہ بھولنا
کہ کون پیاس میں مرا!!“
اسے سب بھول جائیں
پر کیا ماں،محبوبہ اور دھرتی اسے بھولے گی؟!!
آج پھر اسے دھرتی،ماں اور محبوبہ یاد کر رہے ہیں
دھرتی کے سینے پر زرد پھول کھل آئے ہیں
ماں کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے ہیں
اور محبوبہ اس کی یا د سے حاملہ ہو رہی ہے
وہ بھولنے جیسا نہیں
وہ بار بار یاد آنے جیسا ہے
سپنوں میں
خوابوں میں
باتوں میں
برستی بارشوں میں
ڈھلتی شاموں میں
آتی جا تی راتوں میں
نئے نویلے دنوں میں
پھولوں سے سجی مانگوں میں
مندروں کے جلتے دئیوں میں
مسجدوں کی ازانوں میں
اور لہو رنگ پھولوں میں
آنسوؤں میں
اور ٹھنڈی آہوں میں
ایسے مقتولین کے قتل پر دھرتی دیوانی نہ ہو تو پھر کیا ہو؟!!
بھگی آنکھیں ہو تو کیا کیا جائے
تر دامن ہو تو کیا کیا جائے
اداس دل ہو تو کیا کیا جائے
بلوچستان چاند کو روئے،دل کو روئے یا یار کو روئے؟


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں