عالمی انسانی حقوق کے اداروں کی خاموشی سے بلوچستان ایک مقتل گاہ میں تبدیل ہوچکا ہے – ماما قدیر

60

 

بلوچستان کے درالحکومت کوئٹہ میں لاپتہ بلوچوں کی بازیابی کے لیے قائم وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کا احتجاجی کیمپ کو 4423 دن مکمل ہوگئے، اس موقع پر ورکرز پارٹی کے صوبائی سینئر نائب صدر ضیاء بھٹی اور انکے دیگر ساتھیوں نے کمیپ میں آکر اظہار یکجہتی کیا –

اس موقع پر وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ پاکستانی ایجنسیوں، ایف سی اور انکے بنائے گئے ڈیتھ اسکواڈز کے ہاتھوں پرامن احتجاج کرنے والے نوجوانوں، بوڑھے، خواتین اور سیاسی کارکنوں کی ٹارگٹ کلنگ جبری گمشدگیاں اور تشدد سے مسخ شدہ لاشیں پھینکنے جیسے کاروائیاں تیزی سے جاری ہیں –

انہوں نے کہا کہ کٹھ پتلی حکومت تو بلوچستان میں عملاً کہیں بھی نظر نہیں آتا البتہ حکومت کے نام پر فوج سرگرم عمل ہے اور لاپتہ افراد کو سی ڈی ٹی جعلی مقابلوں میں شہید کررہا ہے –

انکا کہنا تھا کہ ریاست ڈیتھ اسکواڈز بلوچ نوجوانوں کو اغواء اور قتل کرکے اپنے آقاؤں سے پیسے اور داد وصول کرتے ہیں –

انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں بنگلہ دیش کی تاریخ دہرائی جارہی ہے جس کے بھیانک نتائج برآمد ہوں گے –

انہوں نے کہا کہ بلوچ سیاسی کارکنوں کی جبری گمشدگی، ٹارگٹ کلنگ اور بلوچستان کے طویل عرض میں آپریشن بلوچ ساحل وسائل کی لوٹ مار کو طویل دینا ہے –

ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ پہلے سے لاپتہ سیاسی کارکنوں کی جعلی مقابلوں میں شہید کرنا ریاستی جبر اور خوف کو مزید طول دینا ہے –

انہوں نے ایک بار پھر عالمی انسانی حقوق کے تنظیموں سے بلوچستان میں ریاستی جبر کے خلاف آواز اٹھانے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ عالمی برادری اور انسانی حقوق کی خاموشیوں سے بلوچستان ایک مقتل گاہ میں تبدیل ہوچکا ہے –