افغانستان کی صورتحال پر دوحہ میں تین روزہ بات چیت کا آغاز آج سے ہوگا

136

افغانستان کے معاملے پر دوحہ اجلاس اقوام متحدہ اورامریکا کے تعاون سے آج شروع ہورہا ہے جس کا مقصد تشدد میں کمی اور مذاکرات کی بحالی ہے۔

اجلاس میں افغانستان کے قومی مصالحتی کمیشن کے سربراہ عبداللہ عبداللہ اور افغان طالبان کے نمائندے بھی شریک ہوں گے۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق افغانستان کے معاملے پر دوحہ میں اسی ہفتے ایک اور اجلاس بھی ہوگا جس میں روس، امریکا، چین اور پاکستان شریک ہوں گے۔

افغانستان کے لیے امریکہ کے نمائندہ خصوصی زلمے خلیل زاد منگل کو قطر پہنچ رہے ہیں جہاں وہ افغان طالبان کے نمائندوں سے ملاقات کرنے والے ہیں۔

امریکی انخلاء شروع ہونے سے افغانستان میں پرتشدد کاروائیوں میں اضافہ ہوا ہے اس وقت طالبان افغانستان کے بیشتر علاقوں پہ قابض ہوچکے ہیں جبکہ کئی علاقوں میں قبضہ کے لئے افغان فورسز اور طالبان کے مابین شدید نوعیت کی جھڑپیں جاری ہیں۔

افغانستان میں طالبان کی پیش قدمی میں گذشتہ چند دن کے دوران تیزی دیکھی گئی ہے اور انہوں نے پانچ دن میں چھ اہم شہروں پر قبضہ کر لیا ہے جن میں نمروز کے دارالحکومت زرنج، سرِ پُل، تخار صوبے کے شہر تالقان اور قندوز شامل ہیں۔

اقوام متحدہ کے ادارے یونیسیف کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ افغانستان میں گذشتہ 3 روز سے جاری لڑائی میں اب تک 27 بچے ہلاک اور 136 سے زائد زخمی ہوچکے ہیں، صرف قندھار میں لڑائی کے دوران 20 بچے مارے گئے جب کہ 130 کے قریب زخمی ہوئے جب کہ خوست اور پکتیا میں 7 بچے جان سے گئے۔

یونیسیف کا کہنا ہے کہ افغانستان میں آئے روز ظلم و بربریت میں اضافہ ہوتا جارہا ہے اور یہ افغانستان میں بڑھتے ہوئے تشدد کا واضح ثبوت ہے، اس کے علاوہ مسلح گروہوں کی جانب سے کم عمر بچوں کو تیزی سے اپنے ساتھ شامل کیا جارہا ہے جو باعث تشویش ہے۔

امریکی صدر جو بائیڈن نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ امریکہ کا افغانستان میں فوجی مشن 31 اگست کو مکمل طور پر اپنے اختتام کو پہنچ جائے گا اور افغانستان کی عوام کو اپنے ملک کے مستقبل کا فیصلہ خود کرنا ہو گا۔

ان کا کہنا تھا کہ وہ امریکیوں کی ایک اور نسل کو 20 سالہ جنگ میں دھکیلنا نہیں چاہتے۔

پینٹاگون کے ترجمان جان کربی نے کہا ہے کہ افغانستان میں جاری صورتحال سے امریکہ کو بہت تشویش لاحق ہے لیکن انھوں نے کہا کہ افغان فوج کے پاس طالبان سے جنگ کرنے کی پوری صلاحیت ہے۔

انہون نے کہا کہ ‘یہ ان کی اپنی فوج ہے۔ یہ ان کے اپنے صوبائی دارالحکومت ہیں، یہ ان کے اپنے لوگ ہیں جن کا دفاع کرنا ہے، اور یہ سب ان کی قیادت پر ہے کہ وہ اس موقع پر کیسی کارکردگی دکھاتے ہیں۔’

جب جان کربی سے پوچھا گیا کہ افغانستان کی فوج کی جانب سے مناسب دفاع نہ ہونے کی صورت میں امریکی فوج کیا کرے گی، تو جواب میں ترجمان کا کہنا تھا: ‘زیادہ کچھ نہیں۔’

ترجمان پینٹاگون جان کربی کا کہنا ہےکہ پاکستان کے ساتھ پاک افغان سرحد پر شدت پسندوں کی محفوظ پناہ گاہوں پر بات چیت جاری ہے۔

جان کربی نے کہا کہ پاکستان اور پاکستانی عوام بھی دہشت گرد حملوں کا نشانہ بنے، افغانستان کے ہمسایہ ملکوں کو ایسے اقدامات نہیں کرنا چاہئیں جس سےصورتحال بگڑے۔

ترجمان کا کہنا تھا کہ افغان حکومت کی حمایت کرتے رہیں گے، افغان فضائیہ کی مدد کے لیے جب اور جہاں ممکن ہوا حملے کریں گے۔

جان کربی نے مزیدکہا کہ پاکستان کےساتھ پاک افغان سرحد پرشدت پسندوں کی محفوظ پناہ گاہوں پر بات چیت جاری ہے، محفوظ پناہ گاہوں کی موجودگی عدم استحکام اور عدم تحفظ کا سبب ہیں، ان کا خاتمہ مشترکہ سوچ ہے۔

دوسری جانب پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ افغان حکومت الزام تراشی سے باز رہے اور پاکستان سے تعمیری مذاکرات کرے۔

شاہ محمود قریشی نے سلامتی کونسل میں افغان نمائندے کے بے بنیاد الزامات مسترد کردیے اور کہا کہ افغان حکومت الزام تراشی سے باز رہے اور پاکستان سے تعمیری مذاکرات کرے۔

وزیرخارجہ کا کہنا تھا کہ افغانستان میں ہمارا کوئی فیورٹ نہیں، دوسروں کی ناکامی کا ملبہ پاکستان پر ڈالنا اور قربانی کا بکرا بنانا قابل افسوس ہے جبکہ پاکستان کو سلامتی کونسل کے اجلاس میں نہ بلانا ناانصافی ہے، بھارت نے بطور صدر کونسل ذمہ داریوں کی خلاف ورزی کی۔