بیٹے کی جبری گمشدگی سے پورا خاندان کرب میں مبتلاء ہے – والدہ نصیب اللہ بادینی

159

 

اگر بیٹے کے خلاف کسی قسم کا کوئی بھی الزام موجود ہے یا وہ کسی بھی جرم کا مرتکب ہوئے ہیں تو پھر ملک میں ایک آئین ہے اس کے مطابق سزا دی جائے، والدہ نصیب اللہ بادینی

بلوچستان کے ضلع نوشکی سے تعلق رکھنے والے جبری طور پر لاپتہ نصیب اللہ بادینی کی والدہ نے کوئٹہ میں وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے احتجاجی کیمپ میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے بیٹے کی طویل گمشدگی پر انصاف کا مطالبہ کیا –

انہوں نے کہا کہ میں آج بہت دور نوشکی سے اس امید کے ساتھ آئی ہوں، انصاف کی تلاش میں ایک امید لیکر آپ حضرات کے سامنے حاضر ہوں۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ بات بلوچستان کے ہر فرد کی علم میں ہے کہ گذشتہ دو دہائیوں سے بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کا ایک نہ رکھنے والا سلسلہ شروع ہے، سیاسی و سماجی کارکنوں کو صرف اس لئے لاپتہ کیا جاتا ہے کہ شعور رکھتے ہیں اس میں ہزاروں افراد گمنام ٹارچر سیلوں میں اپنے ناکردہ گناہوں کی سزا کاٹ رہے ہیں، ان میں میرا بیٹا نصیب اللہ بادینی بھی شامل ہے اور کئی نوجوان مسخ شدہ لاشوں کی صورت میں میدانوں، بیابانوں اور سڑکوں سے ملے ہیں ظلم کی تاریخ طویل اور بہت اذیت ناک ہے جبری الحاق سے تاحال بلوچ خون آشام تباہ کاریوں کا سامنا کرتے آرہے ہیں –

انہوں نے کہا کہ میرے بیٹے نصیب اللہ بادینی کو 25 نومبر 2014 کو پاکستانی خفیہ ایجنسیوں کے اہلکاروں نے نوشکی کے علاقے قاضی آباد سے میرے بیٹے کے سامنے ہمارے دکان سے جبری طور پر حراست میں لے کر لاپتہ کردیا جو تاحال لاپتہ ہے نصیب اللہ ایک ہونہار طالب علم اور فرمانبردار نوجوان تھا اس کے علاوہ ملکی سطح پر وہ ٹیکوانڈ کا ایک گولڈ میڈلسٹ ہے، میں انسانی حقوق کے تمام اداروں سے اپیل کرتی ہوں کہ آپ انصاف کے اس جنگ میں میرا ساتھ دیں اور حتیٰ الامکان میری معاونت کریں –

انہوں نے کہا کہ ہم عدل و انصاف پر یقین رکھتے ہیں اس لیے کوئی ازخود فیصلہ یا حتمی رائے قائم کرنے کی بجائے یہ کہتے ہیں کہ اگر نصیب اللہ بادینی کے خلاف کسی قسم کا کوئی بھی الزام موجود ہے یا وہ کسی بھی جرم کا مرتکب ہوئے ہیں تو پھر ملک میں ایک آئین ہے قانون ہے اس کے مطابق نصیب اللہ بادینی کو کسی بھی عدالت میں پیش کیا جائے اس کے خلاف ایف آئی آر کاٹیں مقدمہ چلائیں اگر کوئی الزام ثابت ہو تو سزا دیں تو ہمیں کوئی اعتراض نہیں لیکن اس طرح ماورائے عدالت کسی شخص کو اغواء کرکے یوں صفحہ ہستی سے غائب کرنا انسانی حقوق کی کھلم کھلا خلاف ورزی اور ملکی قانون کو پاؤں تلے روندنے کے مترادف ہے اگر اس پر کوئی الزام ہے تو پھر سزا صرف اسے ہی ملنی چاہیے اس طرح کسی شخص کو غائب کرکے اس کے پورے خاندان کو کیوں ذہنی کرب میں مبتلا کیا جارہا ہے –

انہوں نے صحافیوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہ کہا کہ میری آواز ہر سماعت تک تب تک پہنچانا جت تک کے مجھے انصاف نا ملے نہ صرف آپ کے پیشہ وارانہ فرائض کا تقاضا ہے کہ بلکہ صحافت جیسے مقدس پیشے کا اخلاقی فرض بھی ہے میں آج آپ کے توسط سے اقوام متحدہ، ایمنسٹی انٹرنیشنل، ہیومن رائٹس واچ کمیشن آف پاکستان، ایشین ہیومن رائٹس کمیشن سمیت انسانی حقوق کے تمام اداروں سے اپیل کرتی ہوں کہ وہ نصیب اللہ بادینی کے اس جبری گمشدگی کا نوٹس لیکر اس کی بحفاظت بازیابی میں اپنا کردار ادا کریں-