بولان کا شہزادہ ،آفتاب یوسف – یاسر بلوچ

670

سر زمین بلوچستان اور یہاں پربولان کا شہزادہ، آفتاب یوسف

تحریر : یاسر بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ 

بسنے والے بلوچوں کا آپس میں ایک گہرا تعلق ہے جو صدیوں سے چلا آرہا ہے، دونوں ایک دوسرے سے بخوبی واقف ہیں اس لحاظ سے دونوں ایک دوسرے کے لئے لازم و ملزوم ہیں اور جب بھی مادر وطن بلوچستان کو کسی بھی مصیبت یا بیرونی قوت کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو اس کے رکھوالے مادر وطن کے فرزند “سرمچار ” اسکی حفاظت کرتے ہیں اور وہ اسکی حفاظت بخوبی جانتے ہیں وہ تمام تر اندرونی اور بیرونی قابض طاقتوں سے نبردآزما ہوجاتے ہیں اور اپنے خون کی آخری قطرے تک اسکی نگہبانی اور دفاع میں لگے رہتے ہیں وہ اپنے وفاداری اور محب الوطنی سے کبھی بھی پیچھے نہیں ہٹتے ہیں اور اسکی حفاظت کے لیے اپنے جان تک نچھاور کرنے کے لیے ہر وقت تیار رہتے ہیں۔

وطن بلوچستان کی دفاع کرنے کے لئے اسکے فرزندوں کا اپنے جانوں کو قربان کرنے کی ایک طویل فہرست موجود ہے ، جو کئی صدیوں سے چلا آ رہا ہے جس میں قربانی کی ایسی داستانیں رقم کی گئی ہیں جنکا شاہد ہی کوئی مثال ملے ۔

وطن کی محبت تمام تر محبتوں سے عظیم تر ہے ، جس میں جینے مرنے کا فلسفہ شامل ہے جہاں کوئی عاشق (سرمچار ) اپنے محبوب (وطن) کی محبت میں اس طرح مگن ہو جاتا ہے کہ وہ اپنے زندگی کا اصل مقصد پہچان لیتا ہے اور اپنے زندگی کا ہر لمحہ اپنے محبوب کے لئے صرف کرلیتا ہے اُسے اپنے محبوب میں ہی خدا کا چہرہ نظر آتا ہے اور وہ اسے سجدہ کرنے لگتا ہے یہاں محبت کا یہ تعلق اتنا گہرا ہو جاتا ہے کہ وہ اپنے حقیقی محبت کو پہچان لیتا ہے اور اُسی کے ہی خاطر وہ اس بناوٹی اور رنگیں دنیا کو الوداع کرکے ایک گمنام دنیا میں چلا جاتاہے ایک ایسی دنیا جہاں صرف وہ اور اسُکا محبت بستا ہے جہاں وفا، مخلصی اور کردار بولتے ہیں جہاں بہادری ، دلیری ،وفاداری اور ثابت قدمی کے مثالیں ملتے ہیں جہان دشمن کے بوکھلاہٹ اور شکست کے قصے سنائے جاتے ہیں جہان آزادی کا بول بالا ہوتا ہے جہاں جیت کے نغمے گائے جاتے ہیں۔

وطن کی محبت میں ایک وطن زادہ دنیا کی تمام تر آسائشیں اور رونقیں ترک کرکے ایک پُرتکلف راستے کا انتخاب کرتا ہے اور گمنامی کی زندگی بسر کرنے کو ترجیح دیتا ہے گمنامی کی زندگی اور پُرتکلف راستوں کا انتخاب وہ جنگ کے لئے کرتا ہے اور یہ جنگ وطن کی دفاع کے لئے لڑی جارہی ہے یہ جنگ امن لانے کے لیے لڑی جارہی ہے یہ جنگ ہماری شناخت اور بقاء کی جنگ ہے اگر آج ہم بندوق نہیں تھام لیتے ہیں جنگ کے لیے تو ہماری شناخت تک ختم ہو جائیگی۔

اپنے بقاء اور وجود کے لئے بندوق اٹھا کر جنگ کرنا ایک شعوری فیصلہ ہے جسکا ادراک بلوچستان کے نوجوان نے کرلیا ہے جو بخوبی یہ سمجھ چکے ہیں کہ ہمارے وجود کا دارومدار اب جنگ سے ہے۔

بلوچ قومی آزادی کی تحریک میں بلوچ نوجوان کا ایک اہم کردار رہا ہے قلم اور بندوق کی طاقت کے ساتھ ایک بزدل دشمن سے روبرو ہیں بلوچ نوجوان دشمن کی چالوں سے بخوبی واقف ہیں وہ دشمن کے ہی بنائی ہوئی نوآبادیاتی تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کر کے دشمن کے اس بناوٹی ساخت کو سمجھ کر اس پر کاری ضرب لگاتے ہیں
بلوچ نوجوان کو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ ریاستی تعلیم اور تعلیمی ادارے کبھی بھی ہمارے لیے نہیں ہوسکتے ہیں یہ ہمارے تاریخ کو مسخ کرنے کے لئے بنائے گئے ہیں ایک جھوٹی اور من گھڑت تاریخ ہمارے لوگوں کے سامنے پیش کیا جارہاہے۔

قومی شعور سے لیس بلوچ نوجوان انہی نوآبادیاتی ریاستی تعلیمی اداروں میں رہ کر ہی اپنے قومی بقاء اور وجود کا تبلیغ کرتے ہیں اور قومی تحریک آزادی کو لیکر آگے بڑھ رہے ہیں۔

آفتاب یوسف بلوچ کا شمار بھی انہی نوجوانوں میں ہوتا ہے جوکہ قومی شعور سے لیس ہیں اور بلوچ قومی آزادی کے لئے پہاڑوں کا رُخ کرکے اپنے مخلصی اور وفاداری کا ثبوت دیتے ہیں۔

آفتاب یوسف بلوچ ایک انتہائی مخلص اور دلیر نوجوان تھا وہ تعلیمی اداروں میں بھی بلوچ نوجوانوں کے حقوق کے لئے ہمیشہ سرگرم تھا وہ جب بھی کوئٹہ آتا تھا تو مجھ سے رابطے میں رہتا ہم ملتے اور قومی تحریک کے مختلف پہلوؤں پر طویل بحث جاری رہتا جس میں قومی تحریک میں ٹیکنیکل جنگ کی ضرورت اور گوریلہ طرز عمل جنگ پر ہم سیر حاصل گفتگو کرتے تھے۔

مجھے اب بھی یاد ہے کہ جب ہم بلوچ سیاست پر گفتگو کر رہے تھے تو آفتاب جان نے کہا کہ” روایتی سیاست سے دور ہوکر نوجوانوں کو جنگ کی طرف توجہ مرکوز کرنا چاہیئے کیونکہ یہ ریاست صرف جنگ کی زبان سمجھتی ہے اور اسے ہم جنگ سے ہی شکست دے سکتے ہیں”

چلتن کے پہاڑی سلسلے میں جب ہم چہل قدمی کر رہے تھے تو باتوں باتوں میں آپ نے یہ اظہار کیا کہ “سنگت مجھے اپنے زمین اور لوگوں کے لئے بہت کچھ کرنا ہے میں بہت کچھ کرنا چاہتا ہوں اور جب بھی میں اپنے قوم کا یہ حالت دیکھتا ہوں تو دل کی دھڑکن تیز ہو جاتی ہے خون تیزی سے گردش کرنے لگتا ہے بےتحاشہ چیخنے کو دل کرتا ہے ایک ایسا چیخ لگانا چاہتا ہوں جس سے پوری زمین لرز اٹھے اور اس پر سونے والا بلوچ قوم کا ہر فرد جاگ اٹھے اس قابض کے خلاف اور اس کو نیست ونابود کرے۔

آفتاب یوسف کو جنگی حکمت عملی میں مہارت حاصل تھا اپنے صلاحیت اور دلیری کی وجہ سے آفتاب یوسف نے فتح اسکواڈ میں اپنا جگہ بنالیا۔

کاش آج میں شہید آفتاب جان سے یہ بول پاتا کہ دیکھو آپ نے قوم کے لئے وہ عظیم کارنامہ سر انجام دیا ہے جو شاہد ہی کسی کو نصیب ہو آج آپ اُس رتبے پر فائز ہو جس کے لئے ہر کوئی ترستا ہے وادی بولان کی سنگلاخ پہاڑوں میں آپ نے اپنے ساتھیوں کے ہمراہ فرنٹ لائن پر لڑتے ہوئے دشمنوں کو نیست ونابود کرکے شکست اُنکے نصیب میں لکھ کر مُسکراتے ہوتے وطن کے لئے جان قربان کر گئے
آپ سمیت تمام شہیدوں کی قربانی ہر وقت یاد رکھے جائینگے اور انکا بدلہ ہم وطن کی آزادی کے صورت میں لینگے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں