نصیر آباد میں خسرے کی وباء بے قابو، 11 بچے جانبحق

106

بلوچستان کے علاقے ڈیرہ مراد جمالی اور نصیر آباد میں خسرے کی وباء پھوٹ پڑی، خسرے کی وباء سے 11 بچے زندگی کی بازی ہار گئے ہں۔

ٹی بی پی نیوز ڈیسک کو موصول اعداد و شمار کے مطابق خسرہ کے وباء کا شکار ہونے والوں میں محمد فیاض ولد عبد القدوس سکنہ گوٹھ لعل محمد ٹیپل شاخ، حسینہ ولد ایاز ابراہیم، شاہد ولد زکریا ابراہیم، لقمان ولد سلیمان سکنہ مانجھوٹی ٹیپل شاخ شامل ہیں۔

مذکورہ بچوں کا تعلق ایک ہی خاندان سے ہیں جبکہ یہ سب ایک ہی ہفتے میں وباء کا شکار ہوئے ہیں۔

علاوہ ازیں متاثرین میں دو بچے ڈیرہ مراد جمالی کے جمالی اسپتال کالونی کے ہیں جبکہ گوٹھ شاہنواز عمرانی سے ایک بچہ اور چھتر شہر کے دو بچے زندگی کی بازی ہارچکے ہیں۔ اسی طرح چھتر کے کہیری کے علاقے میں ایک بچہ اور کھیا سے آئے ہوئے دیرکھانیوں قبیلے کی ایک بچی بھی جانبحق ہوچکی ہے۔

علاقائی ذرائع کے مطابق محکمہ صحت کی جانب سے کسی بھی قسم کے اقدامات نہیں اٹھائے جارہے ہیں۔ محکمہ صحت کی جانب سے موقف پیش کیا گیا ہے کہ مذکورہ بچوں کی اموات لواحقین کی جانب سے انکار کرنے کے باعث پیش آئے ہیں تاہم علاقہ مکینوں مذکورہ الزامات کو مسترد کردیا ہے۔

دریں اثناء سماجی کارکن حمیدہ نور بلوچ کا کہنا ہے کہ جب کبھی کوئی وباء پھیلتی ہے تو میڈیکل ٹیمیں علاقے میں بھیجی جاتی ہے تاکہ وباء کو مزید پھیلنے سے روکا جاسکے، بد قسمتی ہے نصیر آباد ڈویژن کیساتھ سرکاری اداروں سمیت غیر سرکاری اداروں نے سوتیلا سلوک کیا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ پچھلے کئی مہینوں سے نصیر آباد ڈویژن میں خسرہ وباء سے کئی بچے موت کا شکار ہوئے ہیں اور کئی زندگی و موت کے بیچ میں ہیں، شکایات کے انبار کے باوجود کوئی مثبت پیش رفت دیکھنے میں نہیں آرہی، چند اداروں کو میں نے ایی میل کے ذریعے گزارش بھیجی کہ وہ اپنی ٹیمیں یا ضلعی نمائندوں کو متحرک کریں لیکن وہاں بھی رپورٹ رپورٹ کھیلی جارہی ہے۔

خدشے کا اظہار کیا جارہا ہے وباء کے باعث اس طرح کے مزید کیسز سامنے آسکتے ہیں جبکہ متعدد کیسز کے رپورٹ نہیں ہونے کے خدشات کا اظہار کیا جارہا ہے۔

حمید نور کا کہنا تھا کہ “ای پی آئی’ کی کیا کارکردگی ہے؟ صرف سال میں ویلز منانا جس کی مد میں لاکھوں روپے مانیٹرنگ کے نام پہ افسران کی جیبوں میں جاتے ہیں اور علاقے میں بچے مرتے ہیں تو ان کو کوئی پرواہ نہیں ہے۔

انہوں نے سیکریٹری ہیلتھ سے ذمہ داران کے خلاف ایکشن لینے اور صورتحال کو قابو کرنے کے لیے ماہرین کو علاقے میں بھیجنے کی اپیل کی۔