کلچر ڈے اوقات کے تناظر میں – عبدالہادی بلوچ

345

کلچر ڈے اوقات کے تناظر میں

تحریر: عبدالہادی بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

دیکھ رہا ہوں سوشل میڈیا میں غیروں کو بلوچ کلچر ڈے منانے کی تیاری کرتے ہوئے۔ تعجب ہوتی ہے کہ پہلے بلوچ خود اپنا کلچر ڈے مناتا تھا، لیکن آج کل وہ لوگ جو خود کی ذات کو بھی نہیں جانتے، وہ آج کل بلوچ کلچر ڈے منا رہے ہیں۔ جس کو یہ نہیں پتہ کہ کلچر ہوتا کیا ہے اور کب، کس وقت منانی چاہیے۔

یہ بات کہ کلچر ڈے کب اور کس وقت منانی چاہیے یہ تو اپنے بلوچ قوم سے ہی کرنی چاہیئے تاکہ وہ وقت کا تقاضہ دیکھ کر، قوم کی اصل ضرورت کو مد نظر رکھ کر پھر فیصلہ کرے کہ اسے پہلے کیا کرنی چاہیئے اور بعد میں کیا۔ لیکن حیرت اس بات پہ ہوتی ہے کہ پاکستان میں اردو بولنے والوں کو بھی آج کل کیوں اتنی بے تابی ہوتی ہے بلوچ کلچر ڈے منانے کی جبکہ بلوچ خود اپنی پہلی ضرورت اور تقاضہ دیکھتے ہوئے یہ موقع نہیں منانا چاہ رہا ہے۔

اس کے علاوہ، ان غیروں کو ابھی تک یہ علم نہیں کہ کلچر کے کنٹنس (contents) میں پہلی چیز زبان ہوتی ہے جو ثقافت کی دوسرے طرز اور اعمال کی بنیاد رکھتی ہے، اور یہ اردو والے اپنے ذاتی خوشی اور مفادات کیلئے بلوچی کپڑے اور پگڑیاں پہن کر غیرمتعلقہ طرز و اعمال بلوچ ثقافت کے ساتھ گھل ملا کر اس کی نمائش کرتے ہیں جس سے نہ صرف بلوچ ثقافت کی تخریب کاری ہو رہی ہے بلکہ بلوچ قومی مقصد کے دباو کا سبب بھی بن رہی ہے۔

اگر کچھ سال پہلے بلوچ اپنا ثقافتی دن منایا کرتا تھا تو اس وقت حالات بلوچ قوم کے حق میں تھے۔ اس وقت بلوچ اپنا ثقافتی دن اس طرح مناتا تھا جس میں پاکستان کی بلوچ قوم پر تسلط کا احساس ہوتا تھا۔ اپنے غلامی اور محکوم ہونے کا احساس ہوتا تھا۔ بلوچ طلباء تنظیمیں قوم کو ثقافتی دن پہ کھیل و تفریح کے ساتھ ساتھ اپنے قومی مقصد کے بارے میں، اپنے اوپر پاکستانی تسلط کے بارے میں، اپنی مظلومیت و محکومیت کے بارے میں، اور اپنی اصل ضرورت اور تقاضے(جو یقینا پاکستان کی طرف سے چھینی ہوئی آزادی ہے) کے بارے میں شعوری پختگی اور تربیت دینے کی کوشش کرتے تھے۔ اس وقت بلوچ کا ہر گھر ماتم میں نہیں تھا، بلوچ کی ماں اور بہنوں کے دوپٹے آنسوؤں سے پر نہیں تھے۔ اس طرح روڈوں پہ اپنے پیاروں کیلئے دربدر نہیں تھے۔ ہر گھر بلوچ کے خون سے لہو لہان نہیں تھا۔ اس وقت بلوچ ثقافتی دن اپنے ذاتی خوشی کیلئے نہیں بلکہ بلوچ قوم کو دوام دینےکیلئے، اجتماعی مفادات کیلئے، اپنے قومی مقصد کو حاصل کرنے کیلئے، بلکہ اپنی ثقافت کو ہی محکوم سمجھ کر منایا کرتا تھا۔ اس وقت اس دن کے چبوتروں پہ اپنے دشمن اور قابض و غاصب کی پرچم کی نمائش نہیں ہوتی تھی بلکہ بلوچ قومی پرچم، ثقافتی اوزار، طرز عمل اور انداز فکر کے مظاہرے ہوتے تھے۔

یہی وجہ تھی کہ اس وقت غاصب پاکستان کو گوارا نہیں تھا کہ بلوچ کلچر ڈے منائیں۔ وہ نہیں چاہتا تھا کہ بلوچ قوم کو دنیا ایک الگ نظریہ اور طرز عمل و فکر کے طور پر پہچانے اور قبول کرے جیسے کہ یہ خود نام نہاد دو قومی نظریہ کی بنیاد پر خود کو ایک منفرد قوم تصور کر کے آزاد سمجھتا ہے۔ اس کو ڈر تھا کہ یہ بلوچ کی خود مختاری کےلئے انفرادی نظریہ ہونے کا جواز بن جائے گا۔ اسی لیے پاکستان نے اس وقت تو پوری کوشش کی کہ بلوچ اپنی طرح، اپنے انداز میں یہ دن نہ منائیں بلکہ بعد میں یعنی کہ اب کچھ سال سے ہم (بلوچ قوم) اس دن کو ایک الگ انداز میں مناتا ہوا دیکھ رہے ہیں جو سب بلوچ دشمن، غاصب پاکستان کی سوچی سمجھی حکمت عملی اور حربوں کے تحت ہو رہا ہے۔

یہ ایک الگ بات ہے کہ بلوچ قوم کے اوپر جو ناگزیر حالات و صورتحال ہیں جو کچھ حد تک اوپر ذکر کیے گئے ہیں، وہی حقیقی وجوہات ہیں جن کی وجہ سے بلوچ قوم کو ثقافتی دن ناچ اور گانوں جیسے انداز اور اعمال میں نہیں منانی چاہیے، لیکن جو سب سے ضروری بات ہے وہ بھی بلوچ قوم کو زہن میں رکھنی چاہیے کہ ماضی میں پاکستان خود یہ دن منانے کےلئے نہیں چھوڑتا تھا جبکہ آج ہم اس کو بلوچ پگڑی میں کلچر ڈے کے چبوتروں پہ بیٹھتے ہوئے دیکھتے ہیں۔ کیوں؟ کیونکہ وہ دنیا کو بتانا چاہتا ہے کہ ہم ایک ہیں۔ بلوچ پاکستان میں خوش ہیں۔ ایک منفرد قوم نہیں بلکہ پاکستان سے جڑے لوگ ہیں۔ آزادی نہیں چاہتا بلکہ دیکھو ہم ایک ساتھ بیٹھے ہیں۔ اور تو اور، اسے تو بہت خوشی ہو رہی ہے کہ دنیا میں بلوچ قوم کی ایک مثبت تاثر اور تصویر جارہی ہے کہ بلوچ ایک پرامن قوم ہے، بلوچستان ایک پرامن علاقہ ہے۔ کوئی مظالم نہیں ہورہے۔ پہلے کلچر ڈے منانے سے اعتراض کرنا کیونکہ اس وقت اس کی اصلیت سامنے آنے کے ساتھ ساتھ بلوچ قوم میں اپنے قومی مقصد کےلئے شعور اور آگاہی پیدا ہورہی تھی، اور اب اس کو اپنے مفادات کیلئے استعمال میں لانا اس سے بڑی کامیابی اس کےلئے کیا ہو سکتی ہے۔

دوسری طرف بلوچ قوم پاکستان کی اس سوچی سمجھی حکمت عملی کے علاوہ اگر دوسرے وجوہات بھی دیکھیں تو بھی وقت اور حالات کلچر ڈے منانے کے حق میں نہیں ہیں۔ اگر منانا ہے تو ایسے انداز اور طریقے اپنا کر منائیں کہ قابض پاکستان (جو بلوچ کا دشمن کے علاوہ اور کچھ نہیں ) کے مفادات کی خدمت نہ کریں بلکہ بلوچ قوم کے اجتماعی مفادات کی خدمت کرتے ہوں، بلوچ کاز/مقصد کیلئے ہوں، بلوچ کی پہلی ضرورت کیلئے اور وقت اور حالات کے مطابق کے تقاضے کیلئے ہوں جس میں بلوچ قوم کی کامیابی ہو نہ کہ غیر کی۔


بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں