نوتک جان، اور کچھ نہ ختم ہونے والی یادیں – کامران کامی

484

نوتک جان، اور کچھ نہ ختم ہونے والی یادیں

تحریر: کامران کامی

دی بلوچستان پوسٹ

سب سے پہلے میں اپنے رب کا شکر گزار ہوں جنہوں نے مجھے ایک ایسے ہم خیال ہم ذہن ہم فکر، ذی شعور ،دانشمند ،عقلمند ہوشیار، ہمدم شفیق سنگت سے نوازا و سرفراز کیا،جسکے میں دوست ہونے پر ناز و فخر محسوس کرتا ہوں بلکہ صرف میں نہیں پوری دنیا میں جتنے بھی مظلوم و محکوم اقوام ہیں،جن کے سرزمینوں پر سامراجی قوتوں نے اپنی پوری طاقت و قوت سے قبضے جمائے ہوئے ہیں، اس سامراجیت یا قبضہ گیریت کے خلاف بغاوتی یا مزاحمتی تحریک چلانے والا ہر وہ مظلوم و محکوم قوم اس عظیم ہستی کے نام پر اس کی ہمت و جرت اور بہادری پر ناز و فخر محسوس کررہے ہیں۔

آج پورا بلوچستان اور بلوچ قومی تحریک سے جڑے ہوئے ہر فرد آج گھمنڈ، ناز و فخر محسوس کرتے ہیں، ویسی اس ساکن ،بے حس اور بے درد دنیا میں اپنے لیے ایک بلند درجہ و مقام اور منزلت بنانا بہت مشکل و دشوار ہے، لیکن سلمان نوتک نے اپنے عالی ہمت و عالی حوصلے اور ثابت قدمی سے ثابت کیا کہ کیسے اس بے حس اور ساکن دنیا میں اپنے آپ کو اور اپنی قوم کو محترم معروف و نامدار بنائیں۔

کیسے اس مہذب دنیا کو ابدی نیند سوئے ہوئے یا خواب غفلت سے بیدار کرے اور کیسے ان قوموں تک اپنی مظلومیت محکومیت یا محرومیت اور پاکستان کی رچائی ہوئی ظلم و ستم، جور و جفا یا زیادتیوں کو کیسے آشکار یا نمایاں کرے، اور ان کا دھیان یا توجہ کس طرح اپنی طرف متوجہ کرے جو اپنے آپ کو مہذب سمجھتے ہیں، یا مہذب ہونے کی دعوے کرتے ہیں۔

آج دنیا کی سب سے بڑی ترقی یافتہ ممالک و اقوام جیسے کہ امریکہ، روس، برطانیہ، فرانس، چین وغیرہ مجبور ہیں کہ وہ اپنی فارن پالیسی میں یا اپنی انٹرنیشنل بحثوں میں بلوچ قومی تحریک کو نظرانداز نہ کریں، اور اپنی توجہ و دھیان مرکوز کریں بلوچستان میں، خاص کر دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت بھارت، کیونکہ پاکستان اس پورے خطے میں دہشت گردی اور مذہبی فرقہ واریت کو ہوا دینے اور مزید دہشتگردی میں اضافہ کرنے کی کوشش میں لگا ہوا ہے، جو سب سے زیادہ دہشت گردی کی اثرات سے بھارت متاثر ہونے والا ہے۔

یہی سب بتانے اور حقیقت تسلیم کرنے کےلیے اور پاکستان کی منافقانہ و مکروانہ چہرے کو اور بلوچ قومی آزادی کی بحالی کو جو بلوچ قوم کی حقیقی و فطری حق ہے، کوئی بھی بزور شمشیر طاقت و قوت سے اپنے قبضے کو بلوچستان میں برقرار نہیں رکھ سکتا، سلمان نوتک وطن عزیز کی پریمی، شیدا ،عاشق اور وفادار، جان باز اور اپنے آپ کو خود نثار کرنے والے فدائی ہاں ہماری یعنی بلوچ قوم کی مظلومی و محکومی، غلامی و لاچاری، بے بسی کی سمجھ، شعور علم رکھنے والے فدائی سلمان نوتک اپنے باقی ساتھیوں فدائی شہزاد کوبرا، فدائی کنگر یاگی، اور فدائی تسلیم عرف مسلم جان، جو تعریف و توصیف کے محتاج نہیں کہ ساتھ ساری دنیا کو اپنی مردانہ،دلیرانہ اور بہادرانہ فیصلے سے خصوصا یہی سندیسہ، پیغام، میسج پہنچانا مقصد تھا۔

جی اب آتے ہیں اصل موضوع کی طرف شہید فدائی سلمان نوتک ایک چھوٹے قد کا انسان تھا، اور اس چھوٹے قد کی انسان میں ایک بہت بڑی قدآور شخصیت، آدمیت چھپا ہوا تھا، نوتک کی شخصیت کسی تعریف کی محتاج نہیں، کیونکہ کچھ انسان پہلے سے اپنے خصوصیات یا کردار، عادات و صفات سے اپنی پوری تعریف مکمل کرچکے ہوتے ہیں، انہی میں ایک بلند درجہ و مقام حاصل کرنے والے فدائی نوتک سلمان ہیں۔

پاکستانی انٹیلی جینس ایجنسیوں نے خود اعتراف کیا تھا کہ سلمان ایک اعلی تعلیم یافتہ ایک انتہائی باشعور انسان تھا، جب ایک بےظرف انسانیت سے کوسوں دور ،ایک بے رحم، ظالم خود اپنی زبان ،اور اپنی ہی میڈیا، اور اپنے ہی لوگوں کے سامنے سلمان نوتک جان کی تعریف و توصیف کرتے ہوئے دکھائی دیتے تھے، تو ہم یقینا اس پوری کردار کی تعریف کو لکھ یا بیان نہیں کرسکتے جو سلمان کی کردار تعریف پر پورا اترتا ہو۔

نوتک جان کے بہت سارے دوست ہوا کرتے تھے، لنگوٹیا یار ، جگری یار کبھی کبھار میری ملاقات نوتک کہ دوستوں سے ہوا کرتا ہے، میں ان سب سے یہی پوچھتا عرض کرتا ہوں آپ لوگ اتنے موقع تک نوتک کہ ساتھ ہوا کرتے تھے، پھر کیوں کوئی تحریر یا نوتک کے کردار پر کوئی ناول یا افسانہ نہیں لکھتے، ہر کوئی یہی بات کر کہ بات کو ٹال دیتا ہے ہم نوتک کہ کردار پر اس کی تعریف پر کچھ نہیں لکھ سکتے کیونکہ اس کی تعریف میرے سرزمین کی محبت نے پہلے کی ہوئی ہے، بلکہ ہمارے ہاتھ پر قلم بھی ہچکچانے لگتا ہے، اس لئے نوتک کہ شخصیت پر زیادہ آرٹیکل نہیں۔

آج نوتک کو گزرے ہوئے آٹھواں مہینہ جاری ہے، نوتک جان کی یاد بہت شدت سے آرہا تھا تو میں نے سوچا نوتک جان کے نام پر ایک آرٹیکل لکھنے کی کوشش کروں ہوسکے لکھ لوں، تو شروع کیا لکھنا اور جتنے بھی میری علم و زانت کی استطاعت اور فہم ہے، میں کوشش کروں گا، جتنے میرے خدا نے نوتک کی شخصیت کو سنوارا ہے اور زیب و زینت بنادیا ہے،حتی الوسع کوشش ہوگی میرا آرٹیکل انصاف کہ تقاضے پر پورے اترے کمی گیشی ہوئی معذرت، میری نوتک سے شناسائی، واقفیت، جان پہچان صرف ایک سال کی مدت تک تھا، صرف ایک ہی سال میں وہ میرا استاد بن کہ مجھ سمیت پورے بلوچ قوم کہ نوجوان کو شعوری درس دیکر سوچنے اور فکر کرنے پر مجبور کر کہ اپنی نظریہ و افکار، اور باقی بچی ہوئی ڈیوٹی ہم سب دوستوں اور ہر بلوچ پر چھوڑ کر چلا گیا، نوتک عظیم ترین انسانوں میں سے ایک تھا، جو نہ تکبر و غرور ، نہ علاقائیت و قبائلیت، نہ گروہیت نا پارٹی بازی، نا شوق لیڈری، بلکہ سب ایسے چیزوں کی بیخ کنی کیا ہوا تھا جو ایک انقلابی کو انقلابی کہتے ہوئے انقلابی کی توہین نہ ہوتی ہو ،، نوتک نے انفرادیت کی مکمل بیخ کنی کر کے اجتماعیت پر قربان ہوگیا۔

جو اپنی آج کی مصنوعی خوشی چھوڑکر اپنی قدرتی خوشی جسے اللہ نے اسے اپنی ہی سرزمین پر عنایت کی ہوئی تھی، جسے غیر فطری مصنوعی ریاست پاکستان نے بزورے طاقت بلوچ کی چھینی ہوئی آزادی اور خوشحالی کو واپس بحال کرنے، اور واپس اپنی قوم کو ایک خوشحال اور مستحکم معاشرہ دینے کے لیے، اپنی آنے والے پیڑھی نسل کےلیے اپنی جان کہ ساتھ سب کچھ نثار کر گیا۔


بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں