لاپتہ افراد کے معاملے پر مشترکہ بلوچ قومی و سیاسی جرگہ – شفیق الرحمٰن ساسولی

162

لاپتہ افراد کے معاملے پر مشترکہ بلوچ قومی و سیاسی جرگہ

تحریر: شفیق الرحمٰن ساسولی

دی بلوچستان پوسٹ

ہم بلوچ اول قبائلی اور بعد میں سیاسی ہیں، سیاست میں بھی قبائلی اقدار و روایات کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے سیاسی سرگرمیاں سرانجام دیتے ہیں۔ کبھی کہاجاتاہیکہ یہ سیاسی معاملہ ہے یہ قبائلی معاملہ ہے یقیناً اس بات سے انکار نہیں کیاجاسکتاکہ کچھ معاملات صرف قبائلی اور کچھ صرف سیاسی ہوتے ہیں۔ لیکن اس وقت بلوچستان میں ریاستِ کی جانب سے جو مظالم ڈھائے جارہے ہیں نہ وہ صرف سیاسی ہیں اور نہ صرف قبائلی بلکہ وہ ہمارے قبائلی اقدار پر حملہ اور بلوچ قوم کے سیاسی بے بسی کی عکاس ہیں تو اس حوالےسے وقت کا عین تقاضا ہیکہ قبائلی اور سیاسی انداز سے متحرک ہونے کی اشد ضرورت ہے۔

سیاسی معاملات پر چند جرگوں کاحوالہ پیشِ خدمت کرتاہوں۔

بلوچستان تقسیمِ ہند تک ایک خود مختار ریاست کے طور پر نقشے پر موجود تھی۔ قلات کے زیرِانتظام مکران، لسبیلہ اور خاران کے علاقے آتے تھے جبکہ کوئٹہ، نوشکی، نصیرآباد، سبی اور بولان کے علاقے خان نے برطانوی حکومت کو مستاجری پر دیئے ہوئے تھے۔ مستاجری پر دیئے گئے علاقوں کو بدیسی حکمرانوں نے فوجی اہمیت کے پیش نظر اور ذرائع رسل و رسائل کی ترقی کے لیئے سنہ اٹھارہ سو بہتر میں سو سالہ پٹے پر حاصل کیا تھا۔

خان اپنے محل میں سالانہ جرگہ کیا کرتے تھے جس میں بیشتر بلوچ قبائلی سردار شرکت کرتے تھے۔ ان جرگوں کا مقصد قبائل کے درمیان تنازعات نمٹانا اور ریاست کو درپیش مسائل کے حل کیلئے تجاویز و فیصلہ لیناہوتاتھا۔

جرگوں میں چیف آف جھلاوان ( زہری قبیلے کے سربراہ) اور چیف آف ساراوان (رئیسانی قبیلے کے سربراہ) دائیں بائیں طرف بیٹھتے تھے۔ پھر اسی طرح بالترتیب دوسرے سرداران بیٹھتے تھے۔

سنہ اٹھارہ سو چہتر کی گرینڈ جرگے کے طویل عرصے بعد پندرہ ستمبر سنہ انیس سو ستاون کو خان احمد یار خان نے ایک جرگہ بلایا تھا جس میں بلوچ سرداروں کی طرف سے ان کی قیادت پر اعتماد کا اظہار کیا گیا تھا۔

اس جرگہ میں یہ مطالبہ کیا گیا تھا کہ حکومتِ پاکستان خان سے کیئے گئے معاہدے پر عمل کرے جس کی رو سے ریاست بلوچستان کو خود مختاری حاصل تھی۔

’معاہدہ جاریہ‘ کے نام سے سامنے آنے والے اس معاہدے پر اتفاق گیارہ اگست سنہ انیس سو سینتالیس کے روز دہلی میں ہونے والے ایک اجلاس میں کیا گیا تھا۔

لیکن قیام پاکستان کے کچھ ماہ بعد ہی اٹھائیس مارچ انیس سو اڑتالیس کے روز پاکستانی افواج نے بلوچستان کے دارالحکومت قلات پر حملہ کر کے ریاست کا کنٹرول سنبھال لیا۔ پندرہ اپریل کے روز حکومت پاکستان کے نمائندے نےاس وقت کے گورنر جنرل محمد علی جناح کا ایک رُقعہ خان احمد یار خان کے حوالے کیا، جس کی رو سے انہیں ’خانِ خاناں‘ کے خطاب سے محروم اور سرحد ( موجودہ صوبہ خیبرپختونخواہ) سے تعلق رکھنے والے خان بہادر رشید زمان خان کو قلات میں پولیٹکل ایجنٹ مقرر کردیا گیا۔ اور خیبر ہی سے تعلق رکھنے والے ظریف خان کو حکومت پاکستان نے بلوچستان کا وزیر اعظم مقرر کردیا۔

یاد رہیکہ خودمختاری کے چند ماہ کے دوران خان نے ایوان بالا اور ایوان زیریں بھی تشکیل دیئے تھے، جنہوں نے پاکستان سے الحاق کی تجویز کو مسترد کردیا تھا۔ قلات میں ہونے والے فوجی آپریشن میں ریاست کے ایوان بالا اور ایوان زیریں کے نمائندوں اور قلات نیشنل پارٹی کی قیادت کو جیل میں ڈال دیا گیا تھا۔

ستمبر انیس سو ستاون میں جرگے سے ’اعتماد کا ووٹ‘ حاصل کرنے کے بعد خان احمد یار خان اس وقت کے گورنر جنرل سکندر مرزا کے پاس گئے اور انہیں جرگے کے فیصلے سے آگاہ کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ ریاست بلوچستان کے ساتھ کیئے گئے معاہدہ کی پاسداری کی جائے۔
سکندر مرزا نے خان کو پندرہ روز کے لیئے اپنا مہمان ٹھہراتے ہوئے تجویز دی کہ وہ اپنے مطالبے کے حوالے سے قانونی ماہرین سے مشورہ کریں۔ محققین کے مطابق اس دوران قلات میں ریاست کے جھنڈے لہرا دیئے گئے۔ لیکن جنرل ایوب کے مارشل لاء کے ساتھ ہی احمد یار خان کو حراست میں لے کر لاہور میں نظر بند کر دیا گیا۔ وہ چار سال تک نظر بند رہے۔

یاد رہیکہ پھر ایک طویل مدت کے بعد عظیم بلوچستان کے سابق دارلخلافہ قلات میں 2006 میں ایک جرگے کا انعقاد کیاگیا، جہاں بلوچ قبائلی سرداروں کے جرگے کے ذریعے ایک ادارے یا فورم کے احیاء کی کوشش کی گئی، جس کو میں ایک انقلابی فورم کانام دوں گا۔

خان آف بلوچستان سلیمان داؤد احمد زئی بلوچ کی طرف سے بلائے گئے اس جرگہ میں تقریباً پچاسی بلوچ سرداروں اور تین سو کے لگ بھگ قبائلی معتبرین نے شرکت کی تھی۔

2006 میں قلات میں ہونے والے آخری جرگہ سے یہ بات واضح ہوگئی تھی کہ پسماندہ رہ جانے والے بلوچستان میں حقوق کی لڑائی اب سیاسی اور قبائلی سطح پر ساتھ ساتھ لڑی جائے گی۔ اس قبائلی جرگہ میں پہلی دفعہ بڑی تعداد میں سیاسی کارکنوں، دانشوروں اور طالبعلم رہمناؤں نے بھی شرکت کی تھی۔

سابقہ یا 2006 کی جرگہ کے نتیجوں پر بحث سے قطع نظر میرے خیال میں کوئی بھی جرگہ 100 فیصد نتیجہ حاصل کرے نہ کرے مگر طویل جہد کیلئے ایک روڈ میپ یا حوصلہ اور مخالف پر پریشر ڈالنے کیلئے کسی حدتک کافی ہوتی ہے۔

میں سمجھتاہوں کہ بلوچستان میں سنگین مسائل میں سے اہم مسئلہ ” لاپتہ افراد” کا معاملہ ہے۔ اس مسئلے کے حل کیلئے قبائلی اور سیاسی دونوں طریقوں سے جہد کرنا لازمی ہے۔

لہذا بحیثیتِ ایک بلوچ فرزند کے بلوچ قبائلی، معتبرین و سیاسی عمائدین سے گزارش کرتاہوں کہ ایک مشترکہ جرگے کا انعقاد کرکے سب سے پہلے صرف اور صرف مسنگ پرسنز کے معاملے کو حل کرنے کیلئے مشترکہ حکمتِ عملی ترتیب دیکر بلاتعطل جہدجاری رکھیں۔


بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں