طلبہ یونین کی بحالی – ڈاکٹر اصغر دشتی

215

طلبہ یونین کی بحالی

ڈاکٹر اصغر دشتی

دی بلوچستان پوسٹ

آن لائن امتحانات کا مطالبہ کرنے والے احتجاجی طلبہ پر پنجاب میں جس طرح تشدد کا مظاہرہ کیا گیا، گرفتاریاں کی گئیں، ایف آئی آر کاٹی گئیں اس تناظر میں اس بات کو سامنے لانے کی ضرورت ہے کہ ”طلبہ یونین“ کی بحالی ہی طلبہ حقوق کی ضامن ہوسکتی ہے۔ آن لائن تدریس کے بعد (آن لائن تدریس کی حقیقت اور بھونڈے پن سے ہم واقف ہیں) طلبہ کا یہ مطالبہ بالکل درست اور جائز ہے کہ امتحانات کا انعقاد بھی آن لائن ہی ہو۔ پاکستان بھر میں مختلف مسائل پر طلبہ وقتاً فوقتاً احتجاج کرتے رہے لیکن یہ احتجاج ہمہ گیر، مربوط اور منظم نہ ہونے کے سبب وہ نتائج و اثرات پیدا کرنے میں جزوی طور پر کامیاب نظر نہیں آرہے۔ چاہے سندھ میں پاکستان میڈیکل کمیشن (P.M.C) کی ناانصافیاں ہو یاں HEC کی جانب سے بلوچستان اور فاٹا کے طلبہ کے میڈیکل سیٹوں میں کمی کا معاملہ ہو، کالجز میں ایسوسی ایٹ ڈگری کا نفاذ، دو سالہ ماسٹرز، ڈگری کا خاتمہ یا پھر اب پنجاب میں آن لائن امتحانات کے حوالہ سے احتجاج کی حالیہ لہر، ان تمام احتجاجوں کو نہ صرف ایک دوسرے سے جوڑنا ہوگا بلکہ طلبہ یونین کی بحالی کا مطالبہ سرفہرست رکھنا ہوگا۔ کیونکہ آئندہ آنے والے چند برسوں میں ورلڈ بینک اور HEC کی جانب سے تعلیمی پالیسیوں کے بھیانک نتائج طلبہ کو ہی بھگتنے ہونگے۔ لہٰذا طلبہ کے تعلیم کے حق کے لیے، فیسوں میں کمی کے حوالہ سے، ہاسٹلز کی سہولیات، اسکالرشپس پروفیشنل تعلیمی اداروں (میڈیکل، انجنیئرنگ، لاء) میں غیر منصفانہ پالیسیوں کے حوالہ سے طلبہ کے ووٹوں سے منتخب ایک نمائندہ ”طلبہ یونین“ کی بحالی اہم ترین ضرورت بن چکی ہے۔

جب بھی طلبہ یونین، طلبہ سیاست یا Campus Politics کے موضوع پر بات کی جاتی ہے تو عموماً کچھ اس طرح کے دلائل سامنے آتے ہیں کہ کالجز اور یونیورسٹیوں کا کام محض تعلیم دینا ہے یا طلبہ کو سیاسی سرگرمیوں میں شمولیت اختیار نہیں کرنی چاہئے۔ کچھ لوگ طلبہ سیاست کو تشدد سے جوڑ کر طلبہ یونین کی نفی میں تاویلیں پیش کرتے ہیں۔ اس بات کو سمجھے بغیر کہ طلبہ میں تشدد کا فروغ خود اس وقت کی مارشل لائی حکومت کا تیار کردہ ڈیزائن تھا تاکہ طلبہ یونین پر پابندی کا جواز پیدا کیا جاسکے۔ یہ اس وقت کی فوجی حکومت کا اسپانسرڈ پراجیکٹ تھا جن کا مقصد ترقی پسند سیاسی جمہوری قوتوں کو کچلنا تھا۔ اپنے سیاسی اتحادی طلبہ کو مسلح کرنے کا مقصد فوجی حکومت کے خلاف طلبہ، نوجوانوں اور سیاسی ورکروں میں مزاحمت کے جمہوری رویوں کی بیخ کنی کرنی تھی۔سوال یہ ہے کہ ایسا کیوں کیا جاتا ہے؟

کیوں ہمارا سماج طلبہ یونین کے حوالہ سے تقسیم ہے؟ دراصل پاکستانی سماج کو ایک منظم طریقہ سے Depoliticized کیا گیا ہے اور اس Depoliticization کے لیے جمہوریت کی نرسری طلبہ یونین پر پابندی کو ضروری سمجھا گیا۔ کسی بھی سماج کے سیاسی ہونے کا تعلق ایک کثیرالجہتی عمل سے ہوتا ہے۔ تعلیم اور تعلیمی ادارے اس کثیر الجہتی عمل کی بنیاد ہوتے ہیں۔ بقول جان ڈیوی ”جمہوریت کو بار بار جنم لینا پڑتا ہے اور تعلیم اس کی دائی (Midwife) ہوتی ہے۔

“ بدقسمتی سے پاکستان میں طلبہ یونین کی پابندی سے تعلیم اور تعلیمی اداروں کو غیر جمہوری بنیادوں پر ایک غیر جمہوری اور غیر سیاسی سماج کی تشکیل کے لیے بڑی بے دردی سے استعمال کیا گیا ہے۔ لہٰذا پاکستانی سماج کے افراد کی ایک بہت بڑی اکثریت نہ تو سیاسی شعور رکھتی ہے اور نہ ہی ان میں اپنے مسائل اور حالات کے حوالہ سے کسی بھی قسم کی کوئی سرگرمی پائی جاتی ہے۔ چونکہ سماج کے سیاسی ہونے کا بڑا تعلق آگاہی، حقوق کا شعور، سیاسی نظام سے متعلق سوچ اور نظام کو بہتر بنانے والی کوششوں سے ہوتا ہے جس کی بنیادیں تعلیمی اداروں میں پائی جاتی ہیں۔ لہٰذا آج جس طرح کا سماج ہمارے سامنے ہے اس میں اگر طلبہ یونین پر پابندی ہے یا طلبہ کو تعلیمی اداروں میں سیاسی سرگرمیاں نہ کرنے کا حلف نامہ جمع کروانا پڑتا ہے تو یہ کوئی حیرانگی کی بات نہیں۔کیونکہ لوگوں کا ہجوم جو خود کو ایک محکوم رعایا سمجھتے ہیں وہ شہری (Citizen) کے تصور سے ہی ناآشنا ہے۔

برس ہا برس کے غیر سیاسی ماحول نے ان کی عزت نفس کو ہی ختم کردیا ہے جس نے ڈر، خوف اور منافقانہ رویوں کو پروان چڑھانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ یہاں پر یہ سوال بھی کیا جاسکتا ہے کہ وہ کون سی قوتیں ہیں جو طلبہ یونین کی بحالی نہیں چاہتیں؟ وہ کون سی قوتیں ہیں جو گراس روٹ پالیٹکس کو پروان چڑھنے نہیں دینا چاہتیں؟ وہ کون لوگ ہیں جو سیاست کو محض Political Elites تک محدود رکھنا چاہتے ہیں؟ کیونکہ پاکستان میں برپا ہونے والی کوئی بھی ایسی جمہوری، انقلابی یا قوم پرست تحریک اور جدوجہد نہیں جس میں طلبہ نے اپنا حصہ نہ ڈالا ہو۔ پاکستان میں ایوب، یحییٰ اور ضیاء الحق کے خلاف اس لشکرِ حریت کا سب سے پرجوش اور جنگجو دستہ طلبہ پر ہی مشتمل تھا۔ لہٰذا آج کی Dynastic Politics اسٹیبلشمنٹ اور حکمران طبقات نوجوانوں کو سیاست سے دور کرنے اور انہیں غیر سیاسی بنانے کے لیے مختلف اقدامات کرتے رہتے ہیں۔

ریاست، حکومت، صحافت، تعلیمی اداروں، علماء، اساتذہ اور دیگر پرتوں کی جانب سے جدوجہد اور تحریک کو پاگل پن، بے وقوفی، ناسمجھی اور جذباتیت جبکہ مفاہمت، خاموشی، سمجھوتے اور بارگیننگ کو ہی لیڈرشپ، میچیورٹی اور تدبر سمجھنے کی سرتوڑ کوششیں کی جارہی ہیں۔ بچے اگر اندھیرے سے ڈرنے لگیں تو کوئی تعجب نہیں لیکن بالغ لوگ روشنی سے ڈرنے لگیں تو یہ حیرت کی بات ہوگی۔ اور طلبہ یونین اگر اتنی ہی خطرناک اور بری چیز ہے تو پھر وہ امریکی اور یورپی تعلیمی ادارے (کالجز، یونیورسٹیاں) جہاں فعال اور متحرک طلبہ یونین موجود ہے ان کا تعلیمی، تدریسی، تحقیقی اور انتظامی معیار اتنا بہتر کیوں ہے؟ وہ تعلیمی ادارے کیوں اتنی ترقی کررہے ہیں؟ اور پاکستانی کالجز اور یونیورسٹیاں جہاں 1984ء سے طلبہ یونین پر پابندی ہے کیوں اتنی فرسودگی، پسماندگی، تباہی اور بربادی کا منظر پیش کررہی ہے؟ ہمارے پالیسی سازوں اور حکمرانوں کو یہ بات سمجھنی پڑے گی کہ طلبہ یونین پاکستان کے جمہوری، سیاسی، تعلیمی اور تدریسی نظام کی ترقی کے لیے بہت ضروری ہے۔

طلبہ یونین کی بحالی سے آئندہ چند برسوں میں پاکستان کے سماجی ڈھانچے اور سیاسی کلچر میں بنیادی تبدیلیاں محسوس ہونگی۔ طلبہ یونین کی بحالی سے طلبہ کو تعلیمی اداروں میں تعلیم فیسوں اور دیگر پالیسیوں سے متعلق بحیثیت اسٹیک ہولڈر فیصلہ سازی کا اختیار ملے گا۔ طلبہ یونین تعلیمی زندگی کا ایک مثبت،کارآمد اور پروڈکٹو حصہ ہے۔ طلبہ یونین تعلیمی اداروں میں اکیڈمک فریڈم، فری اسپیچ اور تنقیدی سوچ کو بھی پروان چڑھانے میں ایک اہم کردار ادا کریں گی۔ طلبہ یونین کی موجودگی تعلیمی اداروں کی انسٹیٹیوشنل Accountability کے لیے بھی ضروری ہے۔ طلبہ یونین کی بحالی کروڑوں غیر سیاسی وجودوں پر مشتمل پاکستانی قوم کے لیے ایک نئی صبح کا آغاز ہوگی۔