کراچی: بلوچ لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے احتجاج جاری

104

وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کی جانب سے سندھ کے دارالحکومت کراچی میں احتجاج جاری ہے، احتجاج کو مجموعی طور پر 4182 دن مکمل ہوگئے۔ ملیر سے سیاسی و سماجی کارکنان محمد اسحق بلوچ، اصغر بلوچ، داد محمد بلوچ اور دیگر نے کیمپ کا دورہ کرکے لواحقین سے اظہار یکجہتی کی۔

وی بی ایم پی کے رہنماء ماما قدیر بلوچ کا اس موقع پر کہنا تھا کہ بلوچستان میں کئی ہزار معروف بلوچ قوم پرست مرد اور خواتین لاپتہ ہوچکے ہیں اور خفیہ اداروں اور حکام نے ہمیشہ کی طرح قوم پرستوں کو بدنام کرنے کیلئے بلوچستان میں مذہبی جماعتوں کے جانشینوں میں اپنے قابل اعتماد قاتل شامل کرواکر فرقہ وارانہ دہشت گردی کو بے لگام چھوڑ دیا ہے جنہوں نے بلوچستان میں ہزارہ، شیعہ کا قتل عام کیا۔

انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں ان کاروائیوں کو ضیاء دور سے باقاعدہ عمل میں لایا گیا۔ اس پالیسی کے تحت مذہبی انتہاء پسند جماعتوں کو منظم کیا گیا انہیں افرادی قوت فراہم کرنے کیلئے مدارس بنائے گئے اور انہیں مسلح کرکے محکوم اقوام کی نسل کشی کیلئے چھوڑ دیا گیا۔

ماما قدیر کا کہنا تھا کہ انہی پالیسیوں کے تحت عام بلوچ آبادیوں پر اندھا دھند بمباری، جبری گمشدگیاں، سیاسی کارکنوں اور رہنماوں کو ہدف بناکر قتل کرنا شامل ہیں۔ 2000 کے بعد سے اسٹیبلیشمنٹ نے اٹھاو، مارو اور پھینکو کی پالیسی اپنائی ہے۔

انہوں نے کہا کہ مذہبی انتہاء پسندوں کی حوصلہ افزائی کے حوالے سے بلوچستان میں شدید تشویش ہے۔ مذکورہ دہشت گردوں کو مسلک کی بنیاد پر شیعہ، ہندووں، سکھوں اور ذکریوں سمیت بلوچستان میں رہنے والے دیگر افراد کے قتل عام کی اجازت دی گئی ہے۔