گمنام خداؤں کی سرزمین – تبریز بلوچ

465

گمنام خداؤں کی سرزمین

تحریر: تبریز بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

دنیا بھر میں معروفیت کے حامل کھیل شطرنج میں جب بھی بادشاہ یا وزیر کو خطرہ محسوس ہوتا ہے تو پیادے قربانی کےلئے صفِ اوّل میں کھڑے ہوتے ہیں۔ در حقیقت یہ اصول تبدل بھی ہوتے ہیں جب کھیل ریاست اور اس کے مقابل طاقت کے مابین ہو اور وہاں اکثر رہنما یعنی بادشاہ اور وزیر قربانی کےلئے پیش ہوتے ہیں۔ چونکہ یہاں معاملہ محض ایک جیت کا نہیں بلکہ اپنی شناخت اور اپنا وجود برقرار رکھنے کا ہوتا ہے اس لئے اس کھیل کا ہر مہرہ ایک سپاہی کی مانند ہوتا ہے۔

بلوچستان کے حوالے سے یہ بات مزید حیران کن ہو جاتی ہے کیونکہ یہاں بادشاہ اور وزیر سب ہی ایک صف میں کھڑے ہیں نہ کوئی صفِ اوّل ہے نہ آخر۔ اور یہاں مقابلہ کرنے والے بھی گمنام زمینی خدا ہیں جو بن بلائے مہمانوں کی طرح ایک خطے میں اپنا ڈیرا جمائے بیٹھے ہیں۔ خطے کی جغرافیائی صورتحال کو زیر نظر رکھتے ہوئے یہ ہر قابض کی کوشش رہی ہے کہ ایک نوآبادیاتی نظام کے تحت یہاں راج کیا جائے۔ انگریزوں کے دور سے چلنے والا یہ قبضہ گیریت آج بھی اپنی شدت برقرار رکھتے ہوئے جاری ہے البتہ قابض مختلف ہونے کی وجہ سے مزاحمتی طریقوں میں فرق آیا ہے۔ قابض کے حربے کو دیکھتے ہوئے مزاحمتی طریقہ اپنایا گیا ہے۔ کہیں قلم انقلاب کےلئے راستہ بنانے میں کامیاب ہوا ہے تو کہیں ہتھیار ہی مزاحمت کا واحد سہارا رہے ہیں۔ انہیں کمزور کرنے کےلئے اداروں نے ہمیشہ رابرٹ سنڈیمن کا دکھایا ہوا راستہ اختیار کیا ہے جس میں قوم کو اندر سے دیمک لگا کر کھوکھلا کرنے کا نسخہ آزمایا گیا ہے۔

دنیا میں ہر مسئلے کا حل نکالنے کے لیے بنیادی ذہنوں کو زیادہ تکلیف ہوئی ہے۔ چونکہ بنیاد ہی ایک تحریک کو بڑھاوا دیتی ہے۔ تحریک کی تمام تر کامیابیاں بنیاد کی مضبوطی سے وابستہ ہیں۔ انگریزوں کو مات دے کر بلوچوں نے دنیا کے باقی اقوام کو یہ باور کرایا کہ یہ سرزمین کسی قابض کو قبول کرنے والا نہیں ۔مگر بدقسمتی سے چند چاپلوسوں کی وجہ سے انہیں مختصر سی آزادی کے بعد پھر ایک سامراج کا سامنا کرنا پڑا۔

حالات کے پیش نظر قوم کو پھر اپنی بقاء کا خطرہ محسوس ہوا اور دوبارہ مزاحمتی تحریک کا آغاز ہوا۔ بلوچ مزاحمتی تحریک جس کی بنیاد آغا عبدالکریم نے رکھی تھی مختلف اتار چڑھاؤ کے بعد طلباء قیادت کے ہاتھوں آئی۔ چونکہ طلباء معاشرے کا باشعور طبقہ ہوتا ہے اور ان کے مزاحمتی طریقوں میں علمی اور شعوری کاروائیوں کا کردار زیادہ ہوتا ہے۔ اس تحریک کو مضبوط کرنے کےلئے طلباء نے اپنے راستے میں آنے والے ہر قسم کی تکلیفیں برداشت کی ہیں۔ اپنی تنظیم کے قیمتی اثاثے کھوئے، جانیں قربان کیں مگر ہمیشہ ہار ماننے سے انکار کیا۔ جب مرکزی قیادت کو خطرہ محسوس ہوا تو مجبوراً انہیں بطورِ پناہ گزین اپنا وطن چھوڑ کے اجنبیوں پہ بھروسہ کرنا پڑا اور اجنبی اس جسم فروش کی مانند ہوتا ہے جو صرف اپنی قیمت مہنگی کرنے کی دوڑ میں لگا رہتا ہے۔ نتیجتاً یہ ہوا کہ پُرامنی کا دعویٰ کرنے والوں نے بھی بالآخر اپنی قیمتیں بتا دیں اور دشمن اِن کے دام ادا کر کے اپنے طریقوں پہ چلنے لگا۔

2008 میں عارف بارکزئی کو چالاکی سے ناروے میں شہید کیا گیاتھا، پھر ساجد حسین کو بھی اسی طرح راستے سے ہٹایا گیا اور ان تمام واقعات کو ایک حادثہ دکھا کر رفع دفع کیا گیا۔جب یہ دیکھا گیا کہ صرف چند روز کے جذبات کے بعد پھر معمول کی زندگی واپس آتی ہے تو زمینی خداؤں کو موقع ملا کہ وہ اچھے طریقے سے اپنا راج قائم رکھ سکتے ہیں۔ وہ ایک ایک کر کے با شعور لوگوں کو اپنا نشانہ بنانے لگے۔ شاید کسی نے یہ سوچا ہو کہ کینیڈا بھی ہمیں لاش کا تحفہ دے گی اور ہم پھر سے جذبات سے عاری نعرے لگاتے چند روز تک سڑکوں پہ خوب واویلہ کریں گے اور پھر سے بانُک کا جلایا ہوا شعلہ مدھم ہوتا جائے گا۔

بی ایس او کی واحد خاتون چئیر پرسن ہوتے ہوئے انہوں نے اپنی تمام صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے قوم کو مقروض کیا۔ ایک نڈر زندگی گزارنا اتنے بھیڑیوں کے درمیان بہت مشکل ہے، لیکن ارادے پختہ ہوں توں شاید ناممکن کا گمان بھی انسان کے ذہن میں نا رہے۔ جب کوئی قوم کسی ایک نظریہ کے تابع ہوتی ہے تو ان کا مشعلِ راہ ان کا لیڈر ہی ہوتا ہے۔ بالخصوص ایک غلام قوم کے لیڈر کے لئے سب سے مشکل اسے آزادی کا نظریہ دلانا ہے۔ آزادی کا نظریہ دلانا یعنی ایک انقلاب کی بنیاد رکھنا۔ انقلاب کی سوچ کو بڑھانے میں طلباء قیادت پیش پیش رہی ہے۔ ایک طالبہ ہونے کی حیثیت سے بانُک نے اپنا پیغام گوادر سے بولان، تمپ سے کراچی، شال سے نصیر آباد، غرض بلوچستان کے ہر کونے میں بسنے والے مظلوم تک پہنچائی ہے اور انہیں ان کی صورتحال سے آگاہ کیا۔ آواز بلاشک پوری قوم اٹھاتی ہے لیکن اگر لیڈر مضبوط ہو تو شاید اس سے ٹھکرانے والا بھی کوئی نہ ہو۔ اور یہی خوف قوم کے لیے آگے بڑھنے کا راستہ ہموار کرتی ہے اور منزل کے قریب پہنچا دیتی ہے۔ ایسی شخصیات کی تعریف میں شاید الفاظ بھی کم پڑ جائیں مگر جو ہمت و حوصلہ وہ دے جاتے ہیں اس میں کمی نہیں آتی۔ ہمیشہ ان لوگوں کو قربانی دینی پڑتی ہے مگر وہ ایک قربانی ہزار قربانیوں کے برابر ہوتی ہے۔ کسی محکوم پر جبر کا یہ سلسلہ یونہی چلتا رہتا ہے جب تک وہ اپنی زمین کے حاکم خود نہیں ہونگے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں