کریمہ بلوچ نہیں رہی – ٹی بی پی اداریہ

649

کریمہ بلوچ نہیں رہی

ٹی بی پی اداریہ

کریمہ بلوچ کے نام کا شمار رواں بلوچ قومی تحریک کے ان نمایاں کرداروں میں ہوتا ہے، جنہوں نے اس تحریک کو ایک ہیت اور چہرہ بخشا۔ بلوچستان میں جاری “آزادی کی تحریک” میں انکی دیو قامت شخصیت کی موجودگی کو نا صرف بلوچ سیاسی کارکنان بلکہ پورا خطہ محسوس کرتا تھا۔

کریمہ بلوچ نے اپنے سیاسی سفر کا آغاز کم عمری میں ہی بلوچ طلبا تنظیم بی ایس او سے شروع کی۔ وہ اپنی صلاحیتوں، پختہ ارادی اور کرشماتی شخصیت کی وجہ سے تنظیم کے زینوں پر تیزی سے اوپر چڑھتی رہی اور مختلف عہدوں پر اہم ذمہ داریاں نبھاتی رہی۔ آپ پہلی مرتبہ سنہ 2006 میں بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے مرکزی کمیٹی کے رکن اس وقت منتخب ہوئے جب بی ایس او کے تینوں دھڑوں نے طویل مدت کے بعد انضمام کا اعلان کیا ہوا تھا۔ سنہ 2008 میں آپ بی ایس او آزاد کے مرکزی جونیئر وائس چیئرپرسن منتخب ہوئے۔ کریمہ بلوچ نے تنظیم کو منظم کرنے اور خاص طور پر بلوچ خواتین کو سیاست کی جانب راغب کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ سنہ 2012 میں آپ بی ایس او آزاد کے سینئر وائس چیئرپرسن منتخب ہوئے۔

14 مارچ 2014 کو بی ایس او آزاد کے چیئرمین زاھد بلوچ کی جبری گمشدگی کے بعد آپ نے تنظیم کے قائم مقام چیئرپرسن کی حیثیت سے ذمہ داریاں سنبھالیں اور کٹھن حالات میں زاھد بلوچ کی بازیابی کیلئے تحریک شروع کی۔ بعد ازاں سنہ 2015 میں تنظیم کے بیسیوں کونسل سیشن میں کریمہ بلوچ باضابطہ طور پر چیئرپرسن منتخب ہوئے۔ آپ بی ایس او کی ستر سالہ تاریخ میں منتخب ہونے والی پہلی خاتون چیئرپرسن تھیں۔

کریمہ بلوچ نا صرف بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کی سات دہائیوں کی تاریخ میں پہلی چیئرپرسن تھی بلکہ آپ کو رواں بلوچ تحریک میں بلوچ خواتین میں سیاسی تحریک پیدا کرنے کا بانی بھی سمجھا جاتا ہے۔ انہوں نے روایات توڑ کر ایک قبائلی سماج میں خواتین کو گھروں سے نکال کر سڑکوں پر احتجاج کیلئے نکالنے میں کامیاب ہوئی۔ انکے قائدانہ صلاحیتوں نے بلوچ سماج خاص طور پر بلوچ خواتین میں تبدیلیاں پیدا کیں، ان سے متاثر ہوکر بہت سی بلوچ خواتین سیاست کا حصہ بنیں، یہی وجہ ہے کہ آج تقریبا تمام بلوچ سیاسی جماعتوں کے لیڈرشپ میں خواتین شامل ہیں۔

سنہ 2016 میں معروف برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی نے کریمہ بلوچ کا نام “دنیا کے سو با اثر خواتین ” کی فہرست میں شامل کیا۔

اپنی سیاسی سرگرمیوں کی وجہ سے کریمہ بلوچ ہمیشہ سے “ریاستی اداروں” کی جانب سے دھمکیوں اور الزامات کا شکار رہیں۔ ان پر متعدد بوگس مقدمات بنائے گئے۔ انکے ماموں ماسٹر نوراحمد کو اغوا کیا گیا اور بعد ازاں انکی لاش پھینکی گئی، اسی طرح انکے چچا زاد بھائی کریم جان کو بھی جبری گمشدگی کا شکار بنانے کے بعد انکی مسخ شدہ لاش پھینکی گئی۔ ان پر سیاست سے کنارہ کش ہونے کیلئے دباو ڈالا گیا، انکے گھر پر متعدد بار حملے ہوئے۔ اس وجہ سے وہ کینیڈا منتقل ہوگئیں اور اپنی سیاسی سرگرمیاں وہیں جاری رکھے ہوئے تھی اور ساتھ ساتھ ٹورنٹو یونیورسٹی میں اکنامکس کی طالبہ تھی۔ آپ 2018 تک بی ایس او آزاد کے چیئرپرسن رہے اور بعد میں مختلف بین الاقوامی پلیٹ فارموں پر بلوچ مسئلے کو اجاگر کرتے آرہے تھے، تا وقت کہ 21 دسمبر 2020 کو انکی لاش ٹورنٹو شہر سے برآمد ہوئی۔

37 سالہ کریمہ بلوچ 20 دسمبر سے لاپتہ تھیں، اور پولیس نے انکی تلاش شروع کردی تھی، اس حوالے سے ٹورنٹو پولیس نے انکا حلیہ اور تصویر بھی جاری کرکے عوام سے مدد کی اپیل بھی کی تھی، لیکن اگلے رور انکے اہلخانہ نے تصدیق کردی کہ کریمہ بلوچ کی لاش ٹورنٹو سے ہی مل گئی ہے، دوسری جانب ٹورنٹو پولیس اس سانحے کے بارے میں تفتیش کررہی ہے اور مزید معلومات جاری نہیں ہوئے ہیں۔

مشکوک حالات میں انکی ناگہانی موت نے بلوچستان سے باہر مقیم بلوچ پناہ گزینوں کے حفاظت کے بابت سنجیدہ سوالات کھڑے کردیئے ہیں۔ بلوچ پناہ گزین مسلسل بیرون ممالک نشانہ بنتے آرہے ہیں، افغانستان اور ایران میں بلوچ مہاجرین کو نشانہ بنانے کے متعدد واقعات رونما ہوچکے ہیں، اب بلوچ پناہ گزین یورپ اور کینیڈا میں بھی نشانہ بن رہے ہیں۔ کریمہ بلوچ کی گمشدگی کے دن ہی افغانستان کے شہر کندھار میں بلوچوں کے بگٹی قبیلے سے تعلق رکھنے والے دو پناہ گزینوں کو فائرنگ کرکے جانبحق کیا گیا تھا۔

رواں سال ہی مارچ کے مہینے میں سویڈین میں ایک پناہ گزین بلوچ صحافی ساجد حسین لاپتہ ہوگئے تھے۔ بعد ازاں انکی لاش بھی اپسالا شہر میں ایک ندی کنارے مسخ حالت میں ملی تھی۔ انکے اہلخانہ اور عزیز و اقارب نے یہ الزام عائد کیا تھا کہ انہیں قتل کیا گیا ہے اور صحافیوں کی بین الاقوامی تنظیم “رپورٹرز ود آوٹ بارڈرز” نے انکے جبری گمشدگی اور قتل کا الزام پاکستانی خفیہ اداروں پر عائد کی تھی۔

بلوچ سیاسی جماعتوں کا دعویٰ ہے کہ پناہ گزینوں کے حقوق کی عالمی تنظیمیں بلوچ پناہ گزینوں کو تحفظ فراہم کرنے میں ناکام ہوچکے ہیں۔ انہوں نے عالمی اداروں سے اپیل کی ہے کہ وہ اس سنجیدہ صورتحال کا نوٹس لیں اور بلوچ مہاجرین کی حفاظت یقینی بنائیں۔

عالمی برادری خاص طور پر مغربی ممالک جہاں بلوچ سیاسی کارکن پناہ گزین ہیں، انکی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ پناہ گزینوں کی حفاظت یقینی بنائیں۔ سیاسی پناہ دینے کا مطلب محض ملک میں رہنے سے زیادہ ہونا چاہیئے۔ اگر ان پراسرار ہلاکتوں میں بیرونی ہاتھ ملوث ہونے کے شواہد سامنے آتے ہیں تو ان ممالک کو عالمی سطح پر سخت اقدامات اٹھانا چاہیئے۔